تحریر : شیخ خالد زاہد کشمیر کا معاملے سے پاکستان کو باز رکھنے کیلئے بھارت ہر ممکن کوششوں میں لگا رہتا ہے اور ہر طرح کے عزائم کر گزرنے کو تیار رہتا ہے بلکہ کرتا رہتا ہے۔ کلبھوشن ہو یا جندال یا پھر سرحد پر بے جا فائرنگ کا تبادلہ یا پھر کسی بھی شہر میں دھماکے یہ وہ تمام کے تمام عوامل ہیں جو پاکستانی افواج اور پاکستانیوں کو تنگ کرنے کیلئے بہت بے دریغ استعمال ہوتے ہیں۔ دوسری طرف سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہماری صفوں میں میر جعفر جیسے لوگ کثرت سے پائے جاتے ہیں جو دشمن کا ہر مشکل کام آسان کئے دیتے ہیں۔ ہمارے اپنے ہی لوگ اس ملک کے آلائے کار بن کر اپنے ملک کو کمزور اور کھوکھلا کئے جا رہے ہیں۔
پاکستان جس خیر سگالی اور دوقومی نظریہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا اور جس کے لئے ہمارے آباؤ اجداد اور بانیانِ پاکستان نے انگنت قربانیاں دیں کیا اس کا مقصد یہ تھا کہ ہم چند سکوں کہ عوض اپنا تشخص بیچ دیں، ان قربانیوں کی حرمت تہس نہس کر کے رکھدیں۔کیا اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے ہمارے سیاستدان کچھ بھی کر گزر سکتے ہیں یہاں تک کے ملک کی سالمیت بھی داؤ پر لگا سکتے ہیں۔
بھارت اپنی تمام تر دراندازیوں کی بدولت کشمیر میں ظلم و ستم کی ہر روز ایک نئی داستان رقم کرتا جارہا ہے اور پاکستان کو ہر ممکن نقصان پہنچا کر بھی دنیا کے نام نہاد منصفوں کی نظر میں محترم و معصوم بنا ہوا ہے جبکہ پاکستان جو تقریباً پچھلے پندرہ سالوں سے دہشت گردی کیخلاف شروع کی جانے والی جنگ میں اپنے سیکڑوں فوجی جوان اور ہزاروں پاکستانیوں کی زندگیاں قربان کر چکنے کے باوجود پاکستان دنیا کی نظروں میں کوئی خاطر خواہ کوئی مقام نہیں بنا سکا ہے۔ پاکستان کا کوئی پرسان حال نہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں، اگر ہم آج ہم اعلانیہ طور پر ایٹمی طاقت نا ہوتے تو معلوم نہیں ہوتے بھی یا نا ہوتے۔
مذکورہ صورتحال کی ذمہ داری ہماری کمزور خارجہ پولیسی کا نتیجہ ہے، موجودہ حکومت کو چار سال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے مگر آج تک کوئی اس شعبےکا وزیر نہیں بن سکا۔ کیا یہ کسی جمہوری حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت نہیں ہے موجودہ حکومت میں اگر گزشتہ چار سالوں کا جائزہ لیں تو جتنا وزیرِ خزانہ نے میڈیا کا وقت لیا ہے اگر اس کا آدھا وقت بھی خارجہ امور والے صرف کرتے تو صورتحال یکسر مختلف ہو سکتی تھی۔ مگر یہاں تو اتنا کچھ ہو جانے کے باوجود کسی کے کان پر جوں رینگتی نظر نہیں آرہی۔ بھارت کے بھی داخلی امور ہم سے کچھ مختلف نہیں ہوتے مگر انکی خارجہ پالیسی داخلی معاملات سے قطع نظر ہے۔ ایک ہم ہیں کہ نا داخلی معاملات پر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور نا ہی خارجی تعلقات پر دھیان دے رہے ہیں۔
بھارت نے ہمارے خارجی اور داخلی حالات کا بھرپور فائدہ اٹھایا جس میں بھارت کا ساتھ آمریکہ نے بھی دیا اس طرح ایران اور افغانستان ہمارے برادر اور پڑوسی ممالک ہونے کے باوجود بھارت کی زبان بولنا شروع ہوگئے۔ کو بھی ہمارے خلاف بہت دیدہ دلیری اور بے باکی سے استعمال کر رہا ہے۔ بلکہ افغانستان اور ایران اب تو زبان بھی بھارت کی بول رہے ہیں۔ ملک کی سلامتی کو درپیش خطرات روز بروز بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔
ایک طرف وزیرِاعظم صاحب کی نااہلی کا معاملہ ملک کی اعلی عدالت میں چل رہا ہے تو دوسری طرف وزیرِاعظم ملک کے ناکام خارجہ امور بھی خود ہی چلا رہے ہیں، تازہ ترین خارجہ امور کی ناکامی سعودیہ عرب میں واحد ایٹمی ریاست کے وزیرِ اعظم کیساتھ ہونے والا سعودی برتاؤ کسی حد تک شرمندگی کا باعث بننے کیلئے تیار ہے۔ اب جب اپنے ہی ایسا برتاؤ کرینگے تو پھر دوسرے ممالک کو تو کسی خاطر میں لانے کو تیار نہیں ہونگے۔
اگر ہم اس جمھوری حکومت کا تجزیہ، اقتدار کے پہلے دن سے کریں تو کوئی نا کوئی مسلئہ ان کے گلے سے لٹکتا رہا ہے، بظاہر “ڈان لیکس” سے جان چھوٹ گئی مگر یہ “پانامہ کیس” سلجھتا دیکھائی نہیں دے رہا ابھی پانامہ میں ملزم یا مجرم بنے بیٹھے ہیں تو تازہ ترین سعودیہ میں ہونے والی جگ ہنسائی کو گلے میں ڈالے وطن واپس چلے آرہے ہیں۔ آخر یہ جھوٹ ہم کب تک ایک دوسرے سے بولتے رہینگے آخر ہم اپنے دشمن کو دشمن کیوں نہیں کہہ رہے۔ ہمارا دشمن ہمارے خلاف ہمارے ہی لوگوں کو ہمارے ہی دوستوں کو استعمال کئے جا رہا ہے اور ہم ہیں کہ لب کشائی کرنے نے گریزاں ہیں۔ تمام حقائق بھارت کے خلاف ہیں مگر پھر بھی وہ دنیا کی آنکھ کا تارا بنا بیٹھا ہے اور ہم ہیں کہ سب کو تباہ و برباد کر کے بھی اپنا منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ اگر ہم نے سچ نہیں بولا اور تواتر سے نہیں بولا تو ہمارے دشمن کی کامیابیوں میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے گا۔ ہم فقط اپنے ہی لوگوں پر پابندیاں لگاتے رہ جائنگے۔