اصل سرمایہ اولاد

Children

Children

تحریر : عبدالجبار خان
اولاد اللہ پاک کی عطاء قیمتی نعمتوں میں سے ایک ہے کسی بھی انسان کا اصل دھن دولت اور زندگی کا کل سرمایہ اولاد ہی ہوتی ہے اولاد ہی ان تین اہم چیزوں میں سے ایک ہے جو کسی انسان کی وفات کے بعد اس کے ثواب کا ذریعہ بنتی ہے اولاد تب ثواپ کی ذریعہ بنے کی جب اس کی بہتر تربیت ہو گی بچوں کی تربیت سے غفلت کو تا ہی ان کو راستے سے بھٹکنے کا موقع دیتی ہے ہم اپنے آرام اور سکون کے لئے بچوں کو اپنے آپ سے دور تو کر دیتے ہیں پر زندگی میں ایک مو ڑ پر اس بات کا احساس ضرور ہو تا ہے کہ کاش اس وقت بچوں کو وقت دیا ہو تا کسی بھی بچے کی زندگی میں اس کی عمرابتدائی کے پند رہ بیس سال بہت اہم ہو تے ہیں جس میں کسی انسا ن کا لڑکپن سے پختگی کے درمیان کا عرصہ ہو تا ہے اس میں بچپن وا لی شرارتیں اور کھیل کو دبھی ہوتا ہے اور آزادی سے کسی کا م کو کر نے کی خو اہش بھی ہو تی ہے جس پر اس کو فیصلہ کر نے کا خود اختیار حاصل ہو اس عمر میں انسا نی دما غ کی تعمیر اور ترتیب مکمل ہو رہی ہو تی ہے۔

پیدائش سے کم از کم بیس سال کی عمر تک والدین کو اس عرصہ میں اہم کردار ادا کر نا ہو تا ہے والدین کی بچوں سے دوری زیادہ آزادی یا پھر والد ین کی طر ف سے احساس ذمہ داری سے فرارکے علاوہ گھر یلوجھگڑوں کی وجہ سے بچے کی شخصی تعمیر میں کمی رہے جا تی ہے ان حالت میں بچہ یا تو خود آزادی چا ہتا ہے یا زیادہ آزادی کی وجہ سے والدین کو اہمیت نہیں دیتا ہے یا پھر گھر یلو جھگڑوں کی وجہ سے معاشرے سے نفرت کر تا ہے ان سب صورت حا ل کی وجہ سے بچہ ہمیشہ غلط اور انتہائی قدم اٹھا لیتا ہے کسی بھی انسان کی پچپن میں کر دار سازی کے لئے تو بہت سارے عوامل کارفرما ہو تے ہیں لیکن سب سے زیادہ اہم والد ین ‘استاد ‘ اور معاشرہ ہے معاشرے میں آج جتنے بھی مسائل ہیں ان میں سے زیادہ تر ہمارے اپنے پیدا کر دہ ہیں جب یہ مسا ئل ایک انسان سے خاند ان اور پھرپورے معاشرے کو متا ثر کر تے ہیں تو ایسے مسائل ہمیں فطرت نے نہیں دیے بلکہ یہ ہمارے ہی پیداکر دہ ہیں ماہر ین نفسیات کے نزدیک انسا ن اپنے کر داراورو رویوں میں تبدیلیا ں لا کر ان معاشرتی مسائل سے نجا ت حاصل کر سکتا ہے ماہر ین کے نزدیک کسی بھی انسان کا پیدائش سے لے کر تقریباً بارہ سال کی عمر تک کا عرصہ اس کا پچپن شمار ہو گا۔

ایک سال سے پا نچ سال تک کے بچے دنیا کو خود دریافت کر رہے ہو تے ہیں اس میں وہ ہر چیز کو چھو کر سونگھ کر چکھ کر دیکھتے ہیں یہ ان کے سیکھنے کے عمل کا حصہ ہوتا ہے اس عمر میں عموما ً بچے اپنے کھلونوں سے کھیلنے کی بجا ئے ان کو جا نچنے کے لئے توڑتے ہیں کہ یہ کا م کیسے کرتا ہے دیواروںاور فرش کے سوراخوں اور بجلی کے سوئچ میں انگلیاں ڈال کر جانچ پڑتال کر تے ہیں جن پر گھر میں مو جو د بڑے ماں دادی دادا یا گھر کا کوئی بڑا ان نظر رکھ کے ان کا خیا ل کر تا ہے پر ان کو کھیلنے کی آزادی ہو تی ہے پا نچ سال سے دس سال کے بچے زیادہ تر کھیل کود کو پسند کر تے ہیں اور اس کھیل کو د کی وجہ سے لاپروہی کی طر ف چلنا شروع کر دیتے ہیں جیسے پا نچ سال کی عمر تک بچے کو ہاتھ دھونے برش کرنے سلام کرنے اور دیگر آداب سیکھائے جا تے ہیں ایسے ہی پا نچ سال سے بڑے ہو تے بچوں میں ان عادات کو چھو ڑنے کی لا پروہی شروع ہو جا تی ہے کیونکہ والدین سمجھتے ہیں بچہ ایسے چھو ٹے کا م خود کر سکتا ہے جس کی وجہ سے تو جہ میں کمی ہو نے پر وہ ان کا موں کی پرواہ کرنا چھو ڑ دیتا ہے اس عمر میں والدین صرف بچوں سے ان کے متعلق پوچھ لیں اور کبھی خود چیک کر لیں تو بچہ لا پروہی چھو ڑدیتا ہے اور اس کے دہن میں والد ین کی طر ف پوچھے جا نے کا دڑرہتا ہے جس سے اس کی یہ عاد ت بنی رہتی ہے۔

ویسے اکثر دیکھا گیا ہے کہ بچہ پا نچ سال تک اچھی عادتوں کا حامل ہو تا ہے پھر جیسے جیسے وہ بڑا ہو رہا ہو تا ہے وہ یہ عادتیںچھوڑ رہا ہو تا ہے اور والدین کہتے ہیں کہ یہ بچپن میں ایسا نہ تھا اب ایسا کیوں ہو گیا ہے دراصل والدین کی توجہ میں کمی کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہو تا ہے ما ہر ین نفسیا ت کے نز دیک بچہ والدین سے ہی اخلا قی قدریں کا معیا ر اپناتا ہے بچہ جب تک سکول نہیں جا تا تب تک اس میں جتنی بھی عادتیںاور اقدار ہو نگے وہ اس گھر اور خا ندان کی اخلاقی معیا ر کی نما ئند گی کررہا ہو گا بچہ والدین سے ہی اپنی ثقافت کے آداب ‘ رسومات ‘ روایات طور طر یقے قوائدوضوبط سیکھتا ہے اور ان پر عمل کر نے کا پا بند ہو تا ہے اس لئے والدین بچوںکی خا طر اپنے اندر ضرور تبدیلی لے آئیں جب بچہ سکول جا تا ہے تو وہ زیادہ تر وقت سکول میں گزارتا ہے ویسے سکول والے اکثر کہتے ہیں کہ بچے زیادہ وقت گھر گزارتے ہیں دراصل بچے دن کازیادہ وقت سکول میں گزارتے ہیں اور سکول والے بچے کا رات کا وقت گھر میں شامل کر کے اس لئے کہتے ہیں پر جب بچہ دوپہر کے بعد سکول سے واپس آتا ہے تو اس کے پاس جو وقت بچتا ہے اس میں کھا نا آرام کھیل اور ہو م ورک یا ٹیوشن پھر رات کو وہ سو جا تا ہے اب سکول میں گزرنے والا وقت بچے کی شخصی تعمیر میں اہم ہو تا ہے۔

اب سکول کے معا ملے میںوالدین ہر طر ح سے ذاتی تحقیق کے بعد بچے کا داخلہ کروائیں سکول میں بچہ استاد کو اپنا ائیڈیل سمجھتاہے استا د بچے کوتعلیم کے ساتھ معاشرتی اقداروں کی تربیت دیتا ہے جس میں استاد بچے کو نظم وضبط ‘صفائی ‘فرما برداری ‘ احساس ذمہ داری ‘ مل جل کر رہنے جیسی تربیت دیتا ہے ساتھ ہی بچے کی ذہنی صلاحیتوں میں نکھا ر پیدا کر تا ہے ما ہر ین کے نزدیک بچہ استا د ہی کی مدد سے مختلف رویے سیکھتا ہے جیسے ملک سے محبت ‘ دوسرے بچوں کے ساتھ رویہ ‘ ہمسا یوں ‘ محلہ داروں’ ہم وطنوں کے ساتھ رویوں کی تشکیل وغیرہ اب ان تمام با تو ں کے با وجود پھر بھی بھاری ذمہ داری والد ین پر عا ئید ہو تی ہے اکثر والدین ذاتی مصروفیات نوکری کا روبار یا پھر گھریلو جھگڑے کشمکش کی وجہ سے بچوں کو وقت نہ دے کر ان کی حق تلفی کرتے ہیں بچے کے لئے وقت نکا ل کر اس کے ساتھ وقت گزاریں جب بچہ سکول سے واپس آئے تو شام کو اس کی ڈائری ہوم ورک سکول ورک کا جا ئزہ لیں اس سے باتیں کر یں سکول اور تعلیم کے متعلق پوچھیں اس سے سکول کے دوستوں اور کلاس فیلوز کے بارے میں سوالات کریں۔

بچے کی سکول میں کی جا نے والی شرارت یا غلطی پر سمجھا ئیں زیادہ سختی سے برتاؤ کریں گے تو بچہ اپنی باتیں آپ کو نہیں بتا ئے گا اور غلطی کے علاوہ اپنی خواہشات کا بھی اظہار بھی نہیں کرے گا ایک اعتماد کا ما حول بنا ئیں اس کے بیگ کو بہا نے سے چیک کریں کہ وہ کسی اور بچے کی چیزیں تو نہیں لے آتا یہ خیا ل رہے کہ بیگ کو پولیس والوں کی طر ح چیک نہیں کر نا جس سے بچہ اگر کوئی چیز لے بھی آتا ہے تو وہ گھر آنے سے پہلے اس کو کسی اور جگہ رکھ آئے گا رات کو سکول کا بیگ تیا ر کر وا کے رکھ دیں یا پھر کتابوں کو چیک کر نے کے بہا نے بیگ کو دیکھ لیں بچہ گھر سے تو کوئی چیز لے کر نہیں جا رہا ہے اب جن بچوں نے خود کشی کی ہے وہ اسلحہ گھر سے ہی لے کر گئے تھے بچوںکو ہفتے میں ایک دو بار پارک وغیرہ لے جا ئیں ان کے فارغ اوقات میں ان کے کھیل کود میں بھی شامل ہوں اس سے بچے میں خود اعتمادی مزید پائیدار ہو تی ہے گھر سے باہر دوستوں کے بارے میں بھی معلوما ت رکھیں اس کے دوست کیسے ہیں پرجب والدین خاص کر پاب بچوں کو زیادہ وقت دیتا ہے تو بچے دوستوں کی بجا ئے والدین سے زیادہ لگاؤ رکھتے ہیںاگر آپ کے پا س ان کے بچپن میں وقت نہیں ہو گا تو آپ کے بڑھاپے میں پھر بچوں کے پا س وقت نہیں ہو گا پھر وہ دولت کے انبا ر جو بچوں کے لئے لگا ئے تھے جن کی ان کو ضرورت نہیں تھی ان کو تو اپنے ما ں با پ کی ضرورت تھی یورپ میں والدین چھو ٹے چھو ٹے بچوں کو کیر سنٹرو ں میں چھو ڑ کر کا م پر چلے جا تے ہیں۔

جب بچے کچھ بڑے ہو تے ہیں تو وہ گھر چھو ڑ دیتے ہیں اور جب والدین بوڑھے ہوتے ہیں تو یہی بچے ان کو اولڈ ہو م چھو ڑ آتے ہیں یورپ کے لوگوں کا مل جل کر نہ رہنا والدین اور بچوں کا ایک دوسرے سے دور ہو نے کی وجہ سے وہ رشتوں کی اہمیت سے نا واقف ہوتے ہیں جس بنا پر وہ اپنے پا لتو ں جا نوور ں کتوںبلیوں سے تو پیار کر تے ہیں پر خونی رشتوں سے محبت نہیں کر تے ہیں اس کے علاوہ سب سے اہم بات ہمیں اپنی ذات کا جا ئز ہ لینا ہو گا اپنے کردار اور گریبان کو دیکھنا ہو گا اپنی کما ئی میں حلال حرام کے فرق کو جاننا ہو گا جس کا اثر اولاد پر ضرور ہوتا ہے یادرکھیںاولاد سے بڑھ کر اس دنیا میں قیمتی کو ئی چیز نہیں ہو تی جو ہماری کل کا ئنا ت اور کل سرمایہ ہو تے ہیں خدارہ ان کو وقت دیںان کے ساتھ وقت گزاریں ان کی اچھی تربیت کر یں تو یقین کر یں آپ نے اپنی دنیا بھی بنا لی اور آخرت بھی بنا لی۔

Abdul jabbar khan

Abdul jabbar khan

تحریر : عبدالجبار خان