اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کی ایک عدالت نے بھارتی شہری عظمیٰ کو اپنے وطن واپس جانے کی اجازت دے دی ہے۔
عظمیٰ رواں ماہ کے اوائل میں پاکستان آئی تھیں اور ان کا موقف ہے کہ بونیر سے تعلق رکھنے والے طاہر کے ساتھ ان کی دوستی تھی جن سے ملنے وہ یہاں آئیں لیکن ان کے بقول طاہر نے مبینہ طور پر ان سے زبردستی شادی کی۔
عظمیٰ نے اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن میں پناہ لینے کے بعد اپنے وطن واپس جانے کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔
بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے عظمیٰ کو بھارت واپس جانے کی اجازت دیتے ہوئے پولیس کو حکم دیا کہ انھیں حفاظت کے ساتھ واہگہ کی سرحد تک پہنچایا جائے۔
عدالت عالیہ نے عظمیٰ کا اصل امیگریشن فارم طلب کیا تھا جو طاہر نے ایک روز قبل ہی عدالت میں جمع کروایا۔
طاہر خود پر لگنے والے الزام کو مسترد کرتے ہیں اور اطلاعات کے مطابق بدھ کو عدالتی فیصلے کے بعد انھوں نے عظمیٰ سے علیحدگی میں ملاقات کی درخواست کی، لیکن عظمیٰ نے ان سے ملنے سے انکار کر دیا۔
جج کا کہنا تھا کہ اگر خاتون طاہر سے نہیں ملنا چاہتیں تو انھیں کوئی مجبور نہیں کر سکتا۔
عظمیٰ اور طاہر کا معاملہ منظر عام پر آنے کے بعد آئے روز اس بنا پر ابہام کا شکار نظر آتا رہا ہے کہ اس میں فریقین کے موقف میں خاصا تضاد پایا جاتا رہا۔
ان دونوں کی دوستی ملائیشیا میں ہوئی تھی اور عظمیٰ کا موقف ہے کہ طاہر نے مبینہ طور پر اسلحے کی نوک پر نکاح نامے پر دستخط کروائے۔
انھوں نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ ان کی بیٹی تھیلیسیمیا کی مریضہ ہیں لہذا انھیں واپس بھارت جانے کی اجازت دی جائے۔