تحریر : منظور احمد فریدی اللہ جل شانہ کی لا محدود حمد وثناء تاجدار عرب و عجم جناب محمد مصطفی کریم پر درودوسلام کے کروڑوں نذرانے پیش کرنے کے بعد راقم نے ساہیوال کول پاور پراجیکٹ کے افتتاح کے بعد کل کے ایک قومی اخبار میں میاں برادران کی طرف سے دیا جانے والا فل پیج اشتہار پڑھا جس میں اس منصوبہ کی مختصر تفصیل اور مدت تکمیل کے ساتھ اسے سسٹم میں شامل ہوجانے کی نوید بھی لکھی ہوئی تھی اس اشتہار اور افتتاح کے وقت میاں صاحب کی تقریر کے مطابق یہ منصوبہ دنیا کا واحد منصوبہ ہے جو قلیل وقت میں مکمل ہوا ہے اس سے 1300 میگا واٹس بجلی پیدا ہوگی جس میں سے نصف حصہ کو چلا کر 660 میگا واٹس بجلی کو سسٹم میں شامل کردیا گیا ہے اشتہار کے آخر میں لکھا ہوا تھا کہ سوچ نواز کی جوش شہباز کا قارئین کرام میرا تعلق ساہیوال کے علاقہ سے ہی ہے اور میرے علاقہ میں کمہاریوالا ہیڈ ورکس پر بجلی کا ایک اور منصوبہ بھی ہمارے میاں صاحبان سسٹم میں شامل کر چکے ہیں۔
آپ یہ سطور پڑھ کر حیران ہونگے کہ پانی سے بجلی بنانے کے اس منصوبہ پر جتنی لاگت آچکی ہے اس سے کئی افسر شاہی رنگے جاچکے ہیں مگر یہ منصوبہ افتتاح والے دن دوگھنٹے چلانے کے بعد آج تک بند پڑا ہے اور اسے بنانے والی کمپنی کو دو بار تبدیل کردیا گیا اب تیسرا گھر اس سے مستفیذ ہورہا ہے عوام کو جو بجلی مل رہی ہے وہ بیان کرنے کی شائد ضرورت نہیں کیونکہ میڈیا میں عوامی احتجاج کی خبریں عام ہیں اسی طرح جس دن میاں صاحبان نے ساہیوال کے عظیم الشان منصوبہ کا افتتاح فرمانا تھا اسی دن ساہیوال ڈویژن بھر سے بجلی یوں غائب ہے جیسے رمضان میں شیطان حتیٰ کہ کل رمضان المبارک کا چاند نظر آیا تو مساجد میں وضو کے لیے پانی تک نایاب تھا بجلی نے سارادن آنکھ مچولی کا کھیل جاری رکھا۔
ہر ذی شعور کے ذہن میں یہ سوال بار بار ابھرتا ہے کہ سسٹم میں شامل ہونے والی بجلی نے یہ نقصان کیوں کیا کہ عوام جو پہلے استعمال کررہے تھے وہ بھی پوری نہیں ہورہی آخر سات سو میگا واٹس بجلی گئی کہاں ؟ کہیں یہ حکومت اپنی مدت پوری کرنے کے بجائے دن پورے تو نہیں کررہی پانامہ کا شور پی ٹی آئی کے احتجاج عوام کے احتجاج اور سانحہ ماڈل ٹائون کے سارے غصہ سے بچ جانے والی حکومت کو عوام سے اتنا سنگین مذاق کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ وہ کسی بھی احتجاج کا اعلان کرنے والی جماعت کے ساتھ شامل ہوکر اپنے نصیب کو رونا شروع کر دے۔
اگر واقعی یہ منصوبے کامیاب ہیں تو پھر اس بحران کی وجہ کو سرعام بیان کیا جاوے اور اگر وجہ کوئی نہیں تو پھر ان منصوبوں کی پیداواری صلاحیت سے عوام کو بھرپور استفادہ دیا جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام اسی سلوگن کو یو ں تبدیل کرلے کہ سوچ نواز کی جوش شہباز کا اور ہوش پاکستانی عوام کا والسلام۔