تحریر : واٹسن سلیم گل کسی بھی جمہوری اور عامرانہ نظام میں فرق سوچ اور نظریے کا ہے اوراگر نظریے کی یہ تفریق اس معاشرے کے افراد میں مجموعی طور موجود ہو تو وہ کسی بھی صورت میں آمرانہ نظام کا نہ صرف حصہ نہی بنے گا بلکہ اس نظام کے خلاف اٹھ کھڑا ہو گا. مگر اگر کوئ قوم نظریاتی, مزہبی , رنگ اور نسل کے حوالے سے انتشار کا شکار ہو گی تو وہ آمرانہ نظام کے خلاف کمزور ہو گی۔ پاکستان میں جمہوریت اور آمریت کی عمر میں کوئ زیادہ فرق نہی ہے۔ میں پچھلے ادوار کو اگر چھوڑ کر صرف گزری آمریت اور اس کے بعد آنی والی جمہوریت کی بات کروں تو مجھے ان دونوں نظاموں میں کوئ فرق نظر نہی آتا۔ جنرل مشرف نے آیئن توڑا غلط کیا، ہم غلط کو صیح نہی کہہ سکتے۔مگر جنرل مشرف کے ساتھ بھی افواج پاکستان کے سربراہ کے طور پر جو کچھ ہوا وہ بھی غلط ہوا.
جنرل مشرف کا جہاز اترنے نہی دیا گیا۔ پھر زمیں پر موجود فوج کے کمانڈرز نے فیصلہ کیا اور جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئ۔ منتخب وزیراعظم کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ بھی غلط ہوا۔ اسکے بعد جنرل مشرف کو تنہا آرٹیکل 6 میں پھنسایا گیا اور باقی سیاستدان، ججز، اور فوجی افسران جو مشرف کے ہر فیصلے میں ان کے ساتھ کھڑے تھے ان کو چھوڑ دیا گیا یہ بھی غلط ہوا۔ اگر جنرل مشرف فوجی آ مر تھا تو کیا زرداری اور نواز شریف سیاسی آمر نہی ہیں۔ کیا ان دونوں کے بعد بلاول اور مریم قوم پر مسلط نہی ہو نگے اور کیا ان کے بعد ان کے بچے پھر بچوں کے بچے۔ ہم پر جب بھی آمریت مسلط کی گئ ہے تاریخ گواہ ہے کہ اس کو ہمیشہ سیاسی یا جمہوری کاندھے دستیاب رہے.
اگر یہ جمہوری کاندھے نہ ہوں تو آمریت کی بیساکھی ایک قدم نہی چل سکتی .پرویز مشرف آئے تو ان کو تفحہ میں 11 سپتمبر کی دہشتگردی کا واقعہ ملا۔ آج جو پرویز مشرف پر یہ الزام لگا تے ہیں کہ پرویز مشرف نے امریکہ کے ایک فون پر گھٹنے ٹیک دیئے وہ یہ نہی بتاتے کہ اگر وہ مشرف کی جگہ ہوتے تو کیا کرتے۔ میرے نزدیک وہ فیصلہ دانشمندانہ تھا۔ نہی تو افغانستان کے پاس تو برباد کرنے کے لئے کچھ نہی تھا۔ مگر ہمارے پاس بہت کچھ تھا اور جو کچھ تھا وہ سب تباہ ہو جاتا اور ہم اگر پتھر کے زمانے میں نہ بھی سہی مگراس زمانے کے بھی نہ رہتے۔ پرویز مشرف کے اس فیصلے نے پاکستان کی قدروقیمت میں اضافہ کیا اور بھارت جو کہ اس تاک میں تھا کہ پاکستان کوئ غلطی کرے اور وہ اس پر جھپٹے وہ منہہ دیکھتا رہ گیا۔ یہ وہی مشرف ہے جس نے سارک کے اجلاس میں بھارتی وزیراعظم واجپائ سے ہاتھ ملا کر بھارت کو پوری دنیا کے سامنے شرمندہ اور مجبور کر دیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ مزکرات شروع کرے۔ پرویز مشرف کے ابتدائ سال بہت بہترین رہے۔
دنیا بھر میں پاکستان کی مثبت تصویر نظر آنے لگی۔ دہشتگردی کی جنگ میں پاکستان فرنٹ لائن اسٹیٹ بن گیا ۔جنرل مشرف کو پاکستان کے سربراہ کے طور پر دنیا میں جتنی عزت اور احترام ملا شاید وہ اور کسی کو نہی ملا۔ آج بھی وہ باہر بیٹھ کر پاکستان کا مقدمہ جس طرح لڑ رہے ہیں۔ وہ ہماری وزارت خارجہ بھی نہی لڑ رہی ہے۔ بھارت کے بڑے بڑے دبنگ قسم کے صحافی اور ٹی وی اینکرز جو کسی کو بھی بات نہی کرنے دیتے جنرل مشرف کے سامنے بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہی ہے کہ جنرل صاحب ان سے کوئ بتمیزی کرتے ہیں بلکہ ان کے منطق اور دلائل کا بھارت کے میڈیا کے پاس جواب ہی نہی ہوتا۔ پاکستان میں بھی ان سے عوام خوش رہی کراچی میں بہت سے ترقیاتی منصوبے مکمل ہوئے ۔ الیکٹرونک میڈیا کا ایک نیا انقلاب مشرف صاحب کی دین ہے۔ کچھ غلطیاں بھی اس حوالے سے ہوئ کہ چند صحافیوں اور چینلز پر پابندی بھی لگی مگر مجموعی طور پر آج جو میڈیا آزاد اور مضبوط ہے یہ ان ہی کی مرہون منت ہے۔ اس کو ثبوت یہ ہے کہ آج وہی صحافی یہ کہتے ہیں کہ آج کی حکومت میں صحافیوں پر زیادہ مشکلات ہیں۔ اسی طرح خواتین کو بھی مشرف صاحب نے پارلیمنٹ میں مضبوط کیا ورنہ جمہوری حکومتوں کو کبھی یہ خیال نہی آیا۔ اسی دور میں خواتین کی مخصوص نشستوں میں اضافہ کیا گیا۔ اقلیتوں کے حوالے سے کوئ قابل زکر کام تو دیکھنے میں نہی آیا مگر ایک بات ضرور کہونگا کہ اقلیتیں اپنے آپ کو مشرف دور میں جتنا محفوظ سمجھتی تھیں وہ کسی اور دور میں دیکھنے میں نہی آیا۔
مشرف دور کے آخری چند مہنے مشرف کے لئے خطرناک ثابت ہوئے ۔چند ایسے سیاستدان جن کو یہ شک ہو رہا تھا کہ اب مشرف صاحب کا دست شفقت ان کے سر کے بجائے کسی اور سر پر ہے۔ ان سیاست دانوں نے ایسی چال چلی کہ ملک میں بے چینی پھیل گئ۔ دودھ, چینی اور آٹے کا مصنوعی بحران پیدا کیا گیا. ملک میں وافر گندم کی پیداوار ہونے کے باوجود بھی لوگ آٹے خریدنے کو ترس گئے۔ اپنی ہی لاکھوں ٹن گندم کو سستے داموں بین الاقوامی منڈی میں بیچا گیا اور پھر اسی گندم کو جو جہازوں سے اتری بھی نہی تھی دوبارہ مہنگی خرید کر واہس درآمد کیا گیا ۔ان کے ساتھ کے وہ چند سیاست دان جو اب سمجھ چکے تھے کہ مشرف کے جانے کا وقت نزدیک آرہا ہے وہ اب کہیں اور گٹھ جوڑ کر رہے تھے۔ میرا خیال ہے کہ مشرف صاحب پاکستان کی سیاست کے لئے فٹ ہی نہی ہیں۔ جو چال بازیاں ،جھوٹ اور فریب درکار ہے وہ ان میں نہی ہے۔
ہمارے موجودہ سیاسی سسٹم کا حال یہ ہے کہ حال ہی میں سعودی عرب میں عرب امریکن سمٹ میں نواز شریف کو تقریر کا موقع نہی مل سکا۔ اس پر سیاسی جماعتوں کے لیڈر بات کو سمجھنے کے بجائے گندی سیاست کر رہے ہیں۔ ایک طرف آل پارٹی کانفرنس میں حکومت کو پابند کر دیا کہ ایران اور عرب معاملات کے درمیان غیر جانبدار رہا جائے دوسری طرف یہ سیاست دان چاہتے ہیں کہ اس عرب نیٹو کے اجلاس میں جو ایران کے خلاف تھا نواز شریف کو تقریر کا موقع دیا جاتا۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ سعودی عرب ایک ایسے ملک کے سربراہ کو تقریر کرنے دیتا جو ان کے موقف اور نظریے سے مختلف بات کرنا چاہتا تھا۔ میرے حساب سے اس سمٹ میں وزیراعظم کو تقریر کا موقع نہ ملنا پاکستان کے موقف کی کامیابی ہے۔ سیاست دانوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خارجی امور اور بین لاقوامی تعلاقات پر گندی سیاست نہی کرنی چاہے اور جنرل مشرف کے انٹرنیشنل میڈیا پر دیئے جانے والے انٹرویوز سے سیکھنا چاہئے۔