تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری پاکستان کا تصور حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے ٍپیش کیا تھا مگر انہوں نے واشگاف الفاظ میں امت مسلمہ کو یہود ونصاریٰ کی مکروہ سازش فتنۂ قادیانیت سے خبر دار کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ”قادیانیت یہودیت کا چربہ ہے” اور یہ کہ”قادیانی اسلام اور ملک دونوں کے غدار ہیں “پاکستان کے وجود میں آتے ہی قادیانی اپنے مرکز ِ الحاد قادیان سے ربوہ منتقل ہوگئے انگریز سر فرانسس موڈی نے حکومت انگلشیہ کی خدمت کرنے کے عوض انھیںربوہ میں1033ایکڑ سات کینال آٹھ مرلے اراضی پرانا آنہ فی مرلہ کے حساب سے انھیں ” تحفتاً عنایت کر ڈالی۔” ربوہ “حال چناب نگر ضلع جنگ میں دریائے چناب کے کنارے چاروں طرف سے پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے اور پاکستان کے تقریباً وسط میں واقع ہے قادیانی وزیر خارجہ سر ظفر اللہ نے حکومتی چرنوں میں بیٹھے یہاں پر اصلاحات کا جال پھیلا دیا۔اسٹیشن سکول کالجز ہسپتال تعمیر ہوئے سڑکیں بنائی گئیں بجلی پہنچائی گئی بیشتر تعمیراتی کام کروائے گئے کسی بھی مسلمان کے داخلہ پر یہاں پابندی تھی اسطرح پاکستان کے اندر ایک قادیانی ریاست قائم ہو گئی۔
علماء کہا کرتے کہ ربوہ پاکستان کے دل میں خنجر ہے اور شورش کاشمیری کہا کرتے کہ ربوہ پاکستان میں اسرائیل ہے ۔قادیانیوں کارسالہ الفضل 1947میں لکھتا ہے کہ ” ہم ہندوستان کی تقسیم پر رضامند ہوئے تو خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری سے اور پھر یہ کوشش کریں گے کہ کسی نہ کسی طرح متحد ہو جائیں ” قادیانیوں نے آج تک وجود پاکستان کو تسلیم نہیں کیا کیونکہ انکا نام نہادالہامی عقیدہ ہے کہ ایک نہ ایک دن(نعوذ باللہ)پاکستان ٹوٹ کر رہے گا ہم اپنے قبلہ و کعبہ قادیان ضرور جائیں گے۔
اسی لئے قادیانی اپنے مردوں کو ربوہ کے نام نہاد بہشتی مقبروں میں امانتاً دفن کرتے ہیں کیونکہ جب پاکستان اور ہندوستان ان کے عقیدہ بد کے مطابق مل جائیں گے تو وہ اپنے مردے یہاں سے نکال کر قادیان لے جائیں گے عرصہ دراز تک ایسی ہی باغیانہ اور غدارانہ تحریریں ان کی قبروں پر رقم تھیں جو اب مصلحتاً ہٹا دی گئی ہیں اس وقت کے وزیر خارجہ مرتدسرظفر اللہ نے قائد اعظم کا جنازہ نہ پڑھا غیر ملکی سفیروں کے ساتھ باہر بیٹھا رہا (وہ قائد اعظم کو کافر سمجھتا تھا کہ کیوں کہ قائد اعظم مرزا قادیانی کو نبی نہیں مانتے تھے) اس سے پوچھا گیا کہ آپ قائد اعظم کی کابینہ کے وزیر خارجہ ہوتے ہوئے بھی جنازہ میں کیوں شامل نہیں ہوئے تو مرتد ظفر اللہ نے کہا کہ” آپ مجھے کافر حکومت کا مسلمان وزیر سمجھ لیں ،یا مسلمان حکومت کا کافر نوکر”(سرظفراللہ کا جواب روزنامہ زمیندار لاہور8فروی 1950)جب اخبارات اور مسلمان اس چیزکو منظرعام پر لائے تو جماعت احمدیہ کی طرف سے جواب دیا گیا کہ”جناب چوہدری ظفر اللہ خان پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ آپ نے قائد اعظم کا جنازہ نہیں پڑھا تمام دنیا جانتی ہے کہ قائد اعظم احمدی نہ تھے۔
لہذا جماعت احمدیہ کے کسی فرد کا ان کا جنازہ نہ پڑھنا کوئی قابل اعتراض بات نہیں(ٹریکٹ22بعنوان ” احرار علماء کی راست گوئی کا نمونہ”ناشر مہتمم نشر وا شاعت دعوت و تبلیغ )( صدر انجمن احمدیہ ربوہ ضلع جھنگ) تقسیم ملک کے وقت قادیانیوں نے پاکستان میں شمولیت سے انکار کردیا تھا حد بندی کمیشن کے سامنے ایک الگ قادیانی ریاست کا مطالبہ کیا اس میں اپنی تعداد علیحدہ مذہب اپنے سکول ،فوجی ملازمین کی کیفیت ،آبادی وغیرہ کی تفصیلات بھی پیش کی گئیں یہاں تک کہ قادیانی ریاست کا الگ نقشہ بھی پیش کیا جس کے ثبوت Partition of Punjabنامی کتاب میں درج ہیںقادیانی جب اپنی علیحدہ ریاست بنانے میں ناکام ہوگئے تو پھر انہوں نے منصوبہ بنایا کہ پاکستان ہی میں ایک صوبہ قادیانی ہونا چاہیے جس کے لیے انہوں نے بلوچستان کا انتخاب کیاکہ بلوچستان رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا اور آبادی کی اکثریت ان پڑھ بھی ہے۔
ہمارا کھوٹا سکہ اور جعلی نبوت خوب چلے گی منصوبہ ملاحظہ فرمائیں “بلوچستان کی کل آبادی پانچ یا چھ لاکھ ہے زیادہ آبادی کو احمدی بنانا مشکل ہے لیکن تھوڑے آدمیوں کو تو احمدی بنانا کوئی مشکل نہیں پس جماعت اگر اس طرف پوری طرف توجہ دے تو اس صوبہ کو جلد احمدی بنایا جاسکتا ہے اگر ہم سارے صوبے کوا حمدی بنالیں تو کم ازکم ایک صوبہ تو ایسا ہوجائے گاجسے ہم اپنا صوبہ کہہ سکیں گے پس تبلیغ کے ذریعے بلوچستان کو اپنا صوبہ بنالو تاکہ تاریخ میں آپ کا نام رہے(مرزا محمود احمد کا بیان مندرجہ الفضل 13 اگست 1948) اسرائیل میں کوئی بھی مذہبی مشن کام نہیں کرسکتا مگر قادیانی مشن کواسرائیل میں کام کرنے کی کھلی اجازت ہے لوگ ابھی تک وہ چونکا دینے والی تصویر نہیں بھولے جو 12نومبر1985کے اخبار The Jerusalem Postمیں چھپی تھی جس میں اپنے فرائض قبیح سے سبکدوش ہونے والا قادیانی مشن کا سربراہ نئے آنے والے اپنے سربراہ کا تعارف اسرائیلی صدر سے کروارہا ہے جسے دیکھ کر دنیا بھرکے مسلمانوں کی آنکھیں ان کے ناپاک عزئم کو دیکھ کر کھل گئیں۔وما علینا الا البلاغ۔