تحریر : غلام حسین محب سترسال سے محروم، محکوم اور مظلوم قبائل کو ایک بار پھراُس وقت سخت دھچکا لگاجب پاکستانی سیاست کے دو تجربہ کار کرداروں مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی نے نوز شریف کو فاٹا انضمام سے روک لیا۔ اُن کا تجربہ کام آیا تووہ بھی بیچارے قبائل کے خلاف۔ فاٹاکا صوبے میں انضمام اور فرسودہ ظالمانہ نظام ایف سی آرسے نجات کے لیے ایک عرصے سے قبائلی عوام تگ و دو کررہے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ اُنہیں بھی پاکستانی سیاست میں کھل کر حصہ لینے، اپنے حقوق کے حصول کے لیے پارلیمنٹ میں قانون سازی کرنے ،ملک کے دیگر علاقوں کی طرح شہری حقوق ملنے اورپاکستان کی عدالتی نظام ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک رسائی کا حق حاصل ہو اس مقصد کے لیے سماجی اورسیاسی قوتیں ایک عرصے سے سرگرم عمل ہیں۔
قبائل کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے ذوالفقارعلی بھٹوکے دور حکومت سے کام کا آغاز ہونا تھاجوضیاء کی آمد کے ساتھ تعطل کا شکارہوگیامگر مشرف دور سے کام کرنے میں تیزی دیکھنے میں آئی اور اب تک کئی خصوصی کمیٹیاں بنائی گئیں جن کی رپورٹس اورسفارشات وفاقی حکومتوں کو پیش کر دی گئیں۔ تاہم کسی حکومت کو عمل درآمد کرنے کی توفیق نصیب نہ ہو سکی۔
اتنے جدوجہد اور انتظار کے بعدموجودہ حکومت نے کابینہ اجلاس میں باقاعدہ منظوری دی تھی کہ فاٹا کو صوبہ پختونخوا میں ضم کیا جائے گا۔اس اعلان کا قبائلی عوام نے گرمجوشی سے استقبال کیاخصوصاً قبائلی نوجوانوں نے انتہائی خوشی کا اظہار کیاکیونکہ وہ جانتے ہیں کہ نئے دور کے تقاضے کیا ہیں اوروہ کس طرح پاکستانی شہری کی حیثیت سے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لا سکتے ہیں۔ یہ وجہ ہے کہ قبائلی تعلیم یافتہ جوان، شعرائ، صحافی، اساتذہ اور سیاسی لوگ تمام اس بات پر متفق ہوگئے کہ فاٹا کا انضمام صوبہ پختونخوا میں کیا جائے۔اس سلسلے میں قبائلی سیاسی اتحاد نے بڑا کردار ادا کیا جس میں سوائے جے یو آئی کی تمام جماعتیں شامل تھیں ۔انہوں نے ہر فورم پر آواز اٹھائی، جلسے جلوس اور پیس کانفرنس کیے جس کے نتیجے میں حکومت متعلقہ کمیٹی کی سفارشات منظور کرنے پر مجبور ہوئی بلکہ خود مسلم لیگ ن بھی اس اتحاد میں شامل تھی لیکن نواز شریف حکومت مولانا اور اچکزئی کی ایک کال پر ڈھیر ہوئی۔
اب یہ بات قبائلی عوام کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ مولانانے کبھی فاٹا کے ناگفتہ بہہ حالات پر بات تک نہیں کی ۔فاٹا میں سینکڑوں دھماکے ہوئے جس میں سینکڑوں قبائل لقمۂ اجل بنے۔درجنوں قبائلی عمائدین کو ٹارگٹ کیا گیا۔ لاکھوں قبائل نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے۔کئی کئی مہینے کرفیوکی مشکلات کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں کبھی مولانا اور اچکزئی کو قبائل کی یاد نہیں آئی اس پر ستم ظریفی یہ کہ قبائل ایک انتہائی ظالمانہ فرسودہ اور جنگلی نظام میں جھکڑے ہوئے ہیںجس سے نکلنے کے لیے سارے قبائل تگ و دو کررہے ہیں اوروہ فاٹا کی حیثیت کی تبدیلی کے لیے بے چین ہیں۔ حالانکہ یہ بات سب لوگوں خصوصاً قبائل کو معلوم ہے کہ مولانا صاحب محض ذاتی انا اورضد کی وجہ سے فاٹا اصلاحات کے مخالف ہیں۔
مولانا صاحب کا موقف تھا کہ فاٹا کے عوام سے رائے لی جائے اور اس مقصد کے لیے ریفرنڈم کرایا جائے، مگر وہ شائد بھول گئے کہ تمام فاٹا میں سالوں سے جرگے اور مشاورت ہوتی رہی جس کے نتیجے میں سفارشات بنیں جبکہ سات سیاسی پارٹیاں متفق ہیں مگر ایک مولانا ہے کہ میں نہ مانوں۔تو کیا یہ ریفرنڈم نہیں ؟ دوسری طرف اچکزئی تو کھلم کھلا قبائل کی دشمنی موہ لے رہے ہیں کیونکہ اُس کی پارٹی کے نام تک سے قبائل ناواقف ہیں تو اُس کا فاٹا سے کیا لینا دینا۔ایک اور بات بھی اچکزئی کے کردار کو مشکوک بناتی ہے کہ ایک طرف وہ پختونخوا، بلوچستان اور فاٹا کے تمام پختونوں کومتحد کرنے اور ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے اور دوسری طرف وہ اتنی شدت سے فاٹا اصلاحات کی مخالفت کر رہا ہے۔جس کا ثبوت یہ ہے کہ ستر سال بعد قبائل کو امید کی جو کرن نظر آئی تھی اُس کا راستہ روکنے کے لیے دونوں ایڑھی چوٹی کا زور لگارہے ہیں جس پر قبائلی عوام میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے جبکہ قبائلی سیاسی اتحاد، قبائلی وکلاء اور فاٹاکے پارلیمنٹیرین نے ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے جس کی بھرپور حمایت پی پی پی کے شریک چئیر مین سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی کی ہے اور احتجاجی تحریک میں ساتھ دینے کا وعدہ کیا ہے۔
سیاسی اتحاد اور عوامی حلقوں نے ابھی یا کبھی نہیں کی پالیسی اپناتے ہوئے فاٹا اصلاحات پر فوری عمل درآمد کا مطالبہ کیا ہے اور ساتھ ہی اس بات پر مایوسی اور ناراضگی کا اظہار کیا ہے کہ قبائلی عوام کو کیونکر دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔شدید مشکلات اور بدامنی کا شکار قبائلی عوام میں برداشت کا مادہ ختم ہو چکا ہے کہ ایک طرف وہ سینکڑوں سال پیچھے پسماندگی اور محرومی کی زندگی گزار رہے ہیں اور اوپر سے حکومتیں اُن کو پاکستانی تسلیم نہیں کررہے اس حوالے سے سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ خبروں کے مطابق افغانستان میں باقاعدہ اُن قبائل کو پاکستان کے خلاف تیار کیا جارہا ہے جو وہاں نقل مکانی کرکے گئے ہیں۔
افغانستان کے صوبہ خوست میں وزیرستان آپریشن کے بعد پناہ لینے والے قبائل کو انسانی ہمدردی کے نام پر پاکستان میں انتشار اور افراتفری پھیلانے کے لیے تیار کیا جارہاہے۔خدمت کمیٹی کے نام پربنائی گئی کمیٹی کے لیڈر کو چالیس ہزار افغانی ماہانہ جبکہ معاون کو تیس ہزار دیے جاتے ہیں۔ان معاونین میں ایک ڈاکٹر اور ایک گلوکار بھی شامل ہیں۔ان سازشی پرگراموں کی کافی تفصیلات میڈیا میں موجود ہیں جن کا نکشاف اُس وقت ہواجب وہاں ایک مقامی ہوٹل میں ہونے والے خفیہ اجلاس میں ایک طالبان کمانڈر نے کمیٹی کاسربراہ بننے پر اصرار کیا۔تو بات ہورہی تھی قبائلی عوام کی مایوسی اور محرومی کی، جب کوئی قیادت اس قابل نہیں کہ قبائلی عوام کی مجبوری اور پسماندگی کو جان سکے اور اس کے ازالے کے لیے اقدامات کرے تو اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔اس سے پہلے کہ قبائل کو دیوار سے لگاکر تمام راستے اور گنجائشیں ختم ہوجائیں قبائل کو پاکستانی شہری تسلیم کیا جائے ان کو عدالتی انصاف اور پارلیمنٹ میں قانونسازی کا حق دیا جائے۔ستر سالہ پسماندگی کے خاتمے کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں۔غربت، بے روزگاری اور جہالت کے خاتمے کے لیے خصوصی پیکج کا اعلان کیا جائے۔جس کے لیے پہلے قدم کے طور پر ان کو صوبہ پختونخوا میں شامل کرکے نمائندگی دی جائے تاکہ قبائل ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔۔۔۔