تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی اسلام کے بنیادی چار ارکان میں روزہ ایک انتہائی اہم رکن ہے کیونکہ جب کسی صالح اور پرہیزگار مسلمان کا ذکر ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے فلاں شخص پابند صوم و صلو ہے یہ اصطلاح مستعمل اور مروج عام ہے قرآن و حدیث میں روزے کی فرضیت اہمیت اور فضیلت کا ذکر جگہ جگہ ملتا ہے کرہ ارض پربسنے والے اربوں مسلمانوں کے رول ماڈل نبی کریم و رسول رحمت ۖہیں لہذا ہر مسلمان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ہر پہلو کو سنت نبوی ۖ کے مطابق ڈھالے۔ ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی پیارے آقا ۖ کی عبادات ریاضت مجاہدہ میں عام دنوں کی نسبت بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ۔ اِس ماہ میں خشیت اور محبت الہی اپنے نقطہ عروج پر ہوتی آپ ۖراتوں کا قیام بڑھا دیتے۔ رمضان المبارک میں آپ ۖ کی راتیں تو اتر و کثرت کے ساتھ نماز میں کھڑے رہنے تسبیح و تہلیل اور ذکر ِ الہی میں محویت سے عبارت ہے شہنشاہِ دو عالم ۖ نے رمضان المبارک میں قیام کرنے کی فضیلت کے بارے میں فرمایا ۔ جس نے ایمان و احتساب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور راتوں کو قیام کیا وہ گناہوں سے اِس طرح پاک ہو جاتا ہے جس طرح وہ بطنِ مادر سے پیدا ہوتے وقت (گناہوں سے) پاک تھا ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے۔
جب رمضان شروع ہو تا تو رسول اللہ ۖ کا رنگ مبارک متغیر ہو جاتا آپ ۖ کی نمازوں میں اضافہ ہو جا تا اللہ تعالی سے گڑ گڑا کر دعا کرے اور اس کا خوف طاری رکھتے ۔ رمضان المبارک میں شافع محشر کا روزانہ کا معمول مبارک تھا کہ آپ ۖ روزے کا آغاز سحری کھانے اور اختتام جلد افطاری سے کیا کرتے تھے ۔ حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ رسول کریم ۖ نے سحری کھانے کے متعلق فرمایا ہے ۔ سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے ایک اور جگہ پر حضرت ابو قیس نے حضرت عمروبن العاص سے روایت کیا ہے کہ رحمت دو جہاں ۖ نے فرمایا ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزوں میں سحری کھانے کا فرق ہے ۔ رحمت ِ دو جہاں ۖ کا ساری عمر کا ایک معمول تھا کہ آپ ۖ کثرت سے صدقہ خیرات کیا کرتے لیکن جیسے ہی ماہ رمضان کا آغاز ہو تا آپ ۖ کی اِس عادت مبارکہ میں بہت زیادہ اضافہ ہو جا تا ، شہنشاہ عالم ۖ کی سخاوت کا یہ عالم کہ کوئی بھی سوالی آپ ۖ کے در سے خالی ہاتھ واپس نہ جاتا ماہ رمضان میں باقی گیارہ مہینوں کی نسبت سخاوت اپنے نقطہ عروج پر نظر آتی اس ماہ میں صدمہ خیرات کی بارش نظر آتی ۔ حضرت عبداللہ بن عباس روایت ہے۔
ترجمہ : جب حضرت جبرائیل امین آجاتے تو آپ ۖ بھلائی کرنے میں تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے ۔ حضرت جبرائیل کیونکہ رمضان المبارک میں خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے پیغام محبت لے کر آتے تھے ۔ چونکہ عام دنوں کی نسبت جبرائیل کثرت سے آتے تھے اِس لیے سرور کائنات جبرائیل امین کے آنے کی خوشی میں صدقہ خیرات بھی کثرت سے کرتے تھے امام نووی اِس حدیث مبارکہ کی اہمیت اِس طرح بیان کرتے ہیں ۔آپ ۖ کی جود و سخا کی بیان ۔ رمضان المبارک میں کثرت سے صدقہ خیرات کے پسندیدہ عمل ہونے کا بیان ۔ نیک بندوں کی ملاقات پر جو د و سخا اور خیرات کی زیادتی کا بیان قرآن مجید کی تدریس کے لیے مدارس کے قیام کا جواز ۔ نبی کریم ۖ پورا رمضان المبارک بہت زیادہ ذوق شوق سے عبادات کرتے ۔ آپ ۖ رمضان المبارک میں تلاوت ِ قرآن پاک بہت بڑھا دیتے تلاوت قرآن مجید افضل ترین عبادت میں سے ہے ۔ حضرت نعمان بن بشیر روایت کرتے ہیں شہنشاہِ دو عالم ۖ نے فرمایا ۔ میری امت کی سب سے افضل عبادت تلاوتِ قرآن مجید ہے۔
Ramadan
بلاشبہ قرآن مجید کی تلاوت کی بے پناہ اہمیت اور فضیلت ہے یہ عظیم کتاب رمضان المبارک کے با برکت مہینہ میں نازل ہوئی ۔ اِسی لیے رمضان المبارک اور قرآن مجید کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے ۔ لہذا رمضان المبارک کے مقدس ماہ میں قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا اِس عظیم الشان تعلق کو اور بھی مضبوط کر تا ہے ساقی کوثر سرور کائنات محبوب خدا شہنشاہِ دو عالم ۖ کی متعدد احادیث مبارکہ اِس بات کا روشن ثبوت اور دلیل ہیں کہ آقائے دو جہاں ۖرمضان المبارک میں قرآن مجید کی تلاوت فرماتے اور جبرائیل امین کو سناتے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے ۔ ترجمہ : حضرت جبرائیل امین رمضان کی ہر رات میں آپ ۖ سے ملاقات کرتے اور آپ کے ساتھ قرآن مجید کا دورہ کرتے قرآن مجید کی اہمیت کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ روز محشر جب کوئی کسی کا والی نہ ہو گا ہر کسی کو اپنی پڑی ہو تو تلاوت قرآن مجید کا اہتمام کرنے والوں کی شفاعت قرآن مجید خود سفارش کرے گا حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے پیارے آقا ۖ فرماتے ہیں قیامت کے دن روزہ اور قرآن مجید دونوں بندے کی شفاعت کریں گے روزہ کہے گا اے میرے رب میں نے اِس شخص کو دن کے وقت کھانے پینے اور دوسری نفسانی خواہشات سے روکے رکھا پس تو اِس شخص کے متعلق میری شفاعت قبول فرما قرآن کہے گا اے میرے رب میں نے اِس شخص کو رات کے وقت جگائے رکھا پس اس کے متعلق میری شفاعت قبول فرما آپ ۖ نے فرمایا ان دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی۔
رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں رسول اللہ ۖ کا اعتکاف کرنے کا معمول تھا ہماری ماں حضرت عائشہ فرماتی ہیں ۔ حضور نبی کریم ۖ رمضان المبارک کے آخری دس دن اعتکاف کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالی کے حکم سے آپ ۖ کا وصال ہو گیا پھر آپ ۖ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا اِسی سلسلے میں حضرت ابو ہریرہ سے ایک مروی ہے ۔شہنشاہِ دو عالم رحمتِ دو جہاں ساقی کوثر شافع محشر سرور کائنات رسول رحمت ، محبوب خدا ۖ ہر سال رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف فرماتے تھے اور جس سال آپ ۖ کا وصال مبارک ہوا اس سال آپ ۖ نے بیس دن اعتکاف کیا ۔ آج وطن عزیز میں مسلمان حرمت ِ رسول ۖ پر جان دینے کو تیار ہے لیکن سیر ت نبی ۖ کو اپنانے کو تیار نہیں ہے۔ دونوں جہانوں میں حقیقی کامیابی کے لیے ہمیں نبی کریم ۖ کی سیرت مبارکہ کو حقیقی معنوں میں اپنی زندگیوں میں لاناہو گا تب ہی حقیقی کامیابی ہمارا مقدر بنے گی۔