موٹاپے سے متعلق طبی تحقیق کی یورپی تنظیم (EASO) نے خبردار کیا ہے کہ جو بچے 8 سے 13 سال کی عمر میں موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں وہ اپنی آنے والی زندگی میں شدید ڈپریشن میں مبتلا رہ سکتے ہیں۔
اس بات کا انکشاف ہالینڈ میں کیے گئے ایک کثیر قومی مطالعے سے ہوا ہے جس میں 889 افراد کی ذہنی صحت اور جسمانی موٹاپے کا طویل مدتی جائزہ لیا گیا جس میں 1950 سے لے کر 1970 تک کے عشروں میں پیدا ہونے والے افراد سے متعلق معلومات جمع کی گئی تھیں۔
مطالعے کے بعد معلوم ہوا کہ جو افراد 8 سے 13 سال کی عمر میں موٹے تھے، وہ بڑے ہونے پر نہ صرف ڈپریشن میں زیادہ مبتلا دیکھے گئے بلکہ ان میں ڈپریشن کی شدت بھی نمایاں طور پر زیادہ تھی۔ اس سے بھی بڑھ کر تشویش کی بات یہ دیکھنے میں آئی کہ ایسے لوگ اپنی پوری زندگی میں بار بار ڈپریشن کا شکار ہوتے رہے۔
جو افراد بڑے ہونے تک موٹاپے سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہوگئے تھے، ان میں بھی بلوغت پر ڈپریشن میں مبتلا ہونے کی شرح ان افراد کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ دیکھی گئی جو بچپن سے لے کر جوانی تک موٹے نہیں ہوئے تھے۔ علاوہ ازیں وہ لوگ جو بچپن سے لے کر بڑھاپے تک موٹاپے میں مبتلا رہے، وہ متناسب جسم افراد کے مقابلے میں ڈپریشن کے 4 گنا زیادہ شکار بنے۔
ای اے ایس او نے اپنی تازہ پریس ریلیز میں بطورِ خاص والدین کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنے بچوں میں موٹاپے کو نظرانداز نہ کریں کیونکہ بعد کی عمر میں یہی چیز ان کےلیے مستقل ذہنی اذیت کی وجہ بن سکتی ہے۔
واضح رہے کہ موٹاپے کو ایک عالمی بیماری قرار دیا جاچکا ہے جس کے مریضوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ سرِدست امریکی بچے سب سے زیادہ موٹے ہیں جہاں بچوں میں موٹاپے کی شرح 40 فیصد کے قریب پہنچ رہی ہے۔
اسی کے ساتھ دیر تک بیٹھے بیٹھے ویڈیو گیم کھیلنے یا گھنٹوں سوشل میڈیا پر مصروف رہنے کی وجہ سے بھی بچوں میں موٹاپا بڑھ رہا ہے۔
اگرچہ اس سے پہلے بھی موٹاپے کے مضر اثرات پر تحقیقات کی جاچکی ہیں لیکن یہ پہلا موقعہ ہے کہ جب خاص طور پر صرف ایک نفسیاتی بیماری، یعنی ڈپریشن کے موٹاپے سے تعلق کو واضح کیا گیا ہے۔