تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا بھارت میں خصوصی عدالت نے بابری مسجد شہادت کیس میں 25 سال بعد بی جے پی کے ہندو انتہا پسند رہنما ایل کے ایڈوانی سمیت 12 ملزمان پر مجرمانہ سازش کی فرد جرم عائد کر دی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق لکھنو میں سی بی آئی خصوصی عدالت میں بابری مسجد شہادت کیس کی سماعت ہوئی جس میں بی جے پی کے سابق نائب وزیراعظم ایل کے ایڈوانی، کابینہ کی وزیر اوما بھارتی، سینئر بی جے پی رہنما مرلی منوہر جوشی سمیت 12 افراد ملزمان پیش ہوئے اور انہوں نے صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے مقدمے کو خارج کرنے کی درخواست کی، جو عدالت نے مسترد کر دی۔
عدالت میں ملزمان کو ان پر عائد الزامات پڑھ کر سنائے گئے جن میں مجرمانہ سازش کا الزام بھی شامل ہے۔ سماعت سے قبل عدالت نے 50، 50 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض تمام ملزمان کی ضمانت منظور کی۔ دیگر ملزمان میں بی جے پی کے رکن پارلیمان ونے کاٹیار، سادھوی رتمبارا، وشنو ہاری ڈالمیا، رام جنم بھومی ٹرسٹ کے سربراہ نرتیا گوپال داس، رام ولاس ودانتی، بے کنتھ لال شرما عرف پریم جی، چمپت رائے بنسال، دھرما داس اور ستیش پرادھان شامل ہیں۔
ان تمام افراد کو 6 دسمبر 1992 کو درج کی گئی ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا تھا اور ان پر ہجوم کو بابری مسجد شہید کرنے پر اکسانے اور سازش میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
سی بی آئی کی عدالت نے 2001 میں کیس سے مجرمانہ سازش کی دفعہ خارج کر دی تھی اور 2010 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے بھی اس فیصلہ کی توثیق کی لیکن 19 اپریل 2017 کو بھارتی سپریم کورٹ نے دوبارہ کیس میں مجرمانہ سازش کی دفعہ شامل کرتے ہوئے سی بی آئی کی خصوصی عدالت کو حکم دیا کہ ایک ماہ کے اندر اندر فرد جرم عائد کی جائے اور مقدمے کو دو سال میں نمٹایا جائے۔ اسی لیے سی بی آئی عدالت روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت کر رہی ہے۔ یاد رہے کہ بابری مسجد کو 6 دسمبر 1992 کو انتہاپسند ہندوؤں نے شہید کر دیا تھا۔
6 دسمبر 1992ء کو 25 سال ۔ 7 ماہ پہلے ایودھیا میں بابری کو شہید کر دیا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد بھارتی ریاست گجرات میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے، جن میں ہزاروں مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا تھا۔ بابری مسجد کی شہادت کے خلاف اس وقت کے وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ، شیو سینا کے سربراہ بال ٹھاکرے اور ایل کے ایڈوانی سمیت سینکڑوں ملزموں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے جن کا آج تک فیصلہ نہیں ہو سکا۔
بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کیلئے ہندو انتہاء پسند جماعتوں بھارتیہ جنتا پارٹی، آر ایس ایس اور شیوسینا نے ایک تحریک چلائی جس پر عمل درآمد 6 دسمبر 1992ء کو کیا گیا۔ ایل کے ایڈوانی کی سربراہی میں ہزاروں ہندوؤں نے ایودھیا کا رخ کیا اور بابری مسجد کو شہید کر دیا۔ ہندو انتہاء پسندوں کا دعویٰ تھا کہ ظہیر الدین بابر نے ہندو دیوتا رام کی جنم بھومی پر بنے رام مندر کو مسمار کر کے بابری مسجد تعمیر کروائی تھی، تاہم اس حوالے سے ان کے پاس کوئی تاریخی ثبوت نہیں تھا۔ تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے 16 صدی عیسوی میں بابری مسجد تعمیر کروائی تھی۔ یہ مسجد اسلامی فن تعمیر کا شاہکار تھی۔ آج 25 سال اور سات ماہ گزر گئے بابری مسجد کی مختصر تاریخ 1528ء کوایودھیا ضلع فیض آباد اودھ کے مقام پر مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کی جانب سے اودھ کے گورنر میر باقی کے زیر اہتمام تعمیرکی گئی۔
تنازعہ کا آغاز: 15 جنوری 1885ء کو سب جج فیض آباد کی عدالت میں مسجد سے سو قدم کے فاصلے پر رگھبیر داس نام کے ایک شخص نے مندر تعمیر کرانے کی اجازت مانگی جو رد ہوگئی۔
مسجد کو نقصان: 1936ئکے فرقہ وارانہ فسادات میں مسجد کو کچھ نقصان پہنچا۔
ناجائز قبضہ:22،23 دسمبر 1949ء کی درمیانی سرد رات میں کچھ لوگوں نے اندھیرے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے مسجد میں رام لیلا کی مورتیاں رکھ دیں۔
23دسمبر کو فیض آباد کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے وزیر اعلیٰ یوپی پنڈت گووند ولبھ پنت چیف سکریٹری اور ہوم سکریٹری کے نام اس مضمون کا تار روانہ کیا۔ ” 23 دسمبر کی رات میں جب مسجد میں سناٹا تھا اچانک کچھ ہندو وہاں گھس گئے اور غیر قانونی طور سے ایک مورتی وہاں نصب کردی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور سپرنٹنڈنٹ نے فوراً ہی جائے واردات پر پہنچ کر صورتحال کو قابو میں کیا۔ ” یہ بیان ایک کانسٹبل ماتادین کی عینی شہادت پر مبنی تھا۔
وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے وزیر اعلیٰ کو سخت ہدایت دی کہ مسجد کے ساتھ ناانصافی کو ختم کیا جائے۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے اس پر عمل کرنے کے بجائے استعفیٰ دے دیا۔ ضلع فیض آباد کانگریس کمیٹی کے سکریٹری اکشے برہمچاری نے اس زیادتی پر سخت احتجاج کیا۔
1950ء میں انہوں نے مسجد پر ناجائز قبضہ کے خلاف دو مرتبہ برت بھی رکھا۔ 29دسمبر 1949 ئایک ضلع مجسٹریٹ نے حالات کو جوں کا توں برقرار رکھتے ہوئے اس عمارت کو سرکاری تحویل میں لے لینے کا حکم دیا اور اس کا ایک رسیور مقرر کردیا۔
مسلمانو ں پر مسجد میں داخلہ پر پابندی عائد کردی اورپوجا کے لئے چار پجاری مقرر کردئے۔
1950ء میں مسجد میں تالا لگا دیا گیا مگرمحدود پیمانے پر پوجا ہوتی رہی 16جنوری 1950ء کو گوپال سنگھ وکیل کی درخواست پر سول جج نے فیصلہ سناتے ہوئے وہاں حسب سابق مورتیاں رکھی رہنے اور پوجا کے عمل کو جاری رہنے کا حکم دیا۔
17اکتوبر 1984ء کو رام جنم بھومی ایکشن کمیٹی کا قیام عمل میں آیا اور 1985ء کے آغاز میں تالا کھولنے کی تحریک کو وشو ہندو پریشد نے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
25 1986ء جنوری کووکیل نے منصف کی عدالت میں تالا کھولے جانے کیلئے درخواست دی منصف نے اس پر کوئی فیصلہ نہیں دیا۔
31 جنوری 1986ء کو وکیل نے ڈسٹرکٹ جج ایم کے پانڈے کی عدالت مںاپیل کی جج نے سرسری سماعت کے بعد یکم فروری 1986ء کو تالا کھلوا کر عام پوجا کی اجازت دے دی صدر دروازہ کا تالا کھول دیا گیا اور پھر اس جگہ رام مندر کی تعمیر کا مطالبہ زور پکڑتا گیا۔
حملے: وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ یادو کے دور میں 31 اکتوبر اور2 نومبر 1990ء کو کارسیوکوں کی ایک بھیڑ نے مسجد پر حملے کئے، سی آر پی ایف نے گولی چلائی کچھ شرپسند ہلاک ہوئے۔ مسجد کو کچھ نقصان پہنچا اور کلیان سنگھ کی وزارت کے دور میں بھی ایک بار 31 اکتوبر کو حملہ کرکے مسجد کی بیرونی دیوار کو نقصان پہنچا یا گیا۔
شہادت: 6دسمبر 1992ء کو دوپہر میں مسجد پر منظم حملہ کیا گیا۔اور افسوس کہ اس دن شام تک 464 سالہ یہ قدیم تاریخی مسجد زمین بوس ہوگئی۔ آثار قدیمہ: اپریل 2002ء میں الہ آباد ہائی کورٹ نے متنازعہ زمین کے حق ملکیت سے متعلق مقدموں کی سماعت شروع کی۔ عدالت کے حکم پر ماہرین آثار قدیمہ نے یہ پتہ لگانے کے لئے کھدائی شروع کی کہ آیا اس جگہ کبھی رام مندر تعمیر تھا یا نہیں۔
غیر واضح: اگست 2003ء میں ماہرین نے کہا: انھیں مندر کی موجودگی کے شواہد ملے ہیں لیکن کوئی پختہ ثبوت پیش کرنے سے قاصر رہے، مسلمانوں نے اس فیصلے کو تسلیم نہیں کیا۔
لبراہن کمیشن: جون 2009ء میں لبراہن کمیشن نے جانچ شروع کرنے کے 17سال بعد اپنی رپورٹ پیش کی۔
فیصلہ محفوظ:26 جولائی 2010ء الہ آباد کی لکھنؤ بنچ نے مقدمہ پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھا فیصلہ سنانے کی تاریخ 24 ستمبر رکھی ایک رٹ دائر ہونے پر سپریم کورٹ نے فیصلہ کو مؤخر کردیا اور سماعت کی تاریخ 28 ستمبر طے کی۔ 28 ستمبر کو عدالت عالیہ نے رٹ کو خارج کردیا اور فیصلہ سنانے کی تاریخ 30 ستمبر قرار پائی۔
تین حصوں میں تقسیم:30 ستمبر 2010ء الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا، متنازعہ حصہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ گزشتہ روز بھارت میں خصوصی عدالت نے بابری مسجد شہادت کیس میں 25 سال بعد بی جے پی کے ہندو انتہا پسند رہنما ایل کے ایڈوانی سمیت 12 ملزمان پر مجرمانہ سازش کی فرد جرم عائد کر دی۔