تحریر : شاہ فیصل نعیم میری اُس سے پہلی ملاقات ٢٠١٥ ء کے آخر میں یورپ کی ایک مشہور یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں ہوئی تھی۔ وہ اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ میرے سامنے بیٹھا ہوا تھا ۔ وہ ایک ہی وقت میں دنیا کی ٤ اہم زبانوں میں گفتگو کر رہا تھا اُس کی اس خوبی نے مجھے اُس کی طرف متوجہ کر دیا۔ہم ابتدائی کلمات کے بعد کافی دیر مختلف موضوعات پر بات چیت کرتے رہے۔ کھانے کی میز پر جس دوستی کی ابتدا ہوئی تھی وہ اب تک باقاعدہ ایک یارانے میں بدل چکی ہے۔ ہم اکثر مختلف ممالک میں ہونے والے واقعات پر اپنی آراء کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ایک دن میں نے اُس سے پوچھا : “یار تم جرمن، فرنچ ، انگلش اور کروشین اتنی روانی سے کیسے بول لیتے ہو”؟ وہ ہنستے ہوئے کہنے لگا: “شاہ ! اس میں کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ میری والدہ کا تعلق فرانس سے تھا اس لیے مجھے فرنچ بولنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، میرے باپ کا تعلق بوسنیا سے تھا جس کی وجہ سے میرے لیے کروشین بولنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں، میری رہائش جرمنی میں ہے تو میں جرمن بھی بول سکتا ہوں اور میرا تعلیمی نصاب انگلش میں ہے تو انگلش بو لنے میں بھی کوئی مشکل پیش نہیں آتی “۔ وہ مجھے اپنی باتیں سنا رہا تھا اور میں حیران ہورہا تھا کہ کیسی عجیب سی فیملی ہے ماں فرانس سے، باپ بوسنیا سے، رہتے جرمنی میں اور تعلیم انگلش میں حاصل کرتے ہیں۔
“اچھا آپ کے پاس کون سی شہریت ہے بوسنین یا فرنچ”؟ “شاہ! میرے پاس دونوں ملکوں کی شہریت ہے”۔ “مگر آپ ایک عرصے سے جرمنی میں رہ رہے ہو۔ آپ نے جرمن شہریت کیوں نہیں لی “؟”میرے لیے جرمن شہریت لینا کوئی بڑا مسئلہ نہیں لیکن اُس کے لیے مجھے بوسنیا یا فرانس میں سے کسی ایک ملک کی شہریت کو چھوڑنا پڑے گا”۔”جرمنی اور بوسنیا کا اگر موازنہ کیا جائے تو جرمنی اگر آسمان ہے تو بوسنیا زمین ۔ یہ دونوں ممالک ترقی کے اعتبار سے بہت مختلف ہیں۔ آپ کو جرمنی کے بارے میں سوچنا چاہیے”۔
“شاہ! آپ کی بات ٹھیک ہے کہ ان دونوں ممالک کی ترقی میں زمین و آسمان کا فرق ہے مگر ایک ٹرم استعمال ہوتی ہے جسے ‘حب الوطنی’ کہتے ہیں۔ اگر میں بوسنیا کی شہریت چھوڑتا ہو ں تو میں اپنی رگوں میںدوڑتے خون سے غداری کا مرتکب ہوتا ہوں ، میری وجہ سے بوسنیا کا وقار عالمی سطح پہ متاثر ہوتا ہے جو سراسر اپنی دھرتی کو بیچنے کے مترادف ہے اور میںکبھی بھی اُس مٹی کے ساتھ بے وفائی نہیں کرسکتا جس نے مجھے جنم دیا۔ آج جب میں دنیا کو اپنا تعارف کرواتا ہوں تومیں سینہ تان کر کہتا ہو ں کے میرا باپ بوسنین تھا اورمجھے بوسنین ہونے پہ فخر ہے”۔ وہ باتیں کرتا جارہا تھا اور میں سنتے ہوئے اندازہ لگا رہا تھا کہ یورپین اقوام کی ترقی کا ایک راز اپنے وطن سے بے مثال وفاداری ہے ان کا ملک کیسا بھی ہے یہ اُس سے کبھی بھی بے وفائی نہیں کرتے ۔ جو انسان وفادار ہو اُس سے فائدے کی ہی امید کی جاسکتی ہے۔
پاکستان ترقی کیوں نہیں کرتا اس کی جہاں بہت سی وجوہات ہیں مجھے وہاں سب سے اہم وجہ ہماری اس ملک سے بے وفائی نظر آتی ہے۔ اگر آپ کو اندازہ لگانا ہے کہ ہم اس بے وفائی میں کس قدر آگے نکل چکے ہیں تو جائیں پاسپورٹ آفس جاکر دیکھیں کتنے لوگ روزانہ کی بنیاد پر یہ ملک چھوڑنے کو تیار ہیں، جائیں مختلف ممالک کے سفارت خانوں کے باہر لگی لمبی لائنوں کو دیکھیں، ویزہ ایجنٹوں کے ہاتھوں زندگیا ں گنواتے اور سنوارتے لوگوں کی کہانیاں سنیں ، بیرون ملک جا کر سیاسی پناہ لینے والوں اور پاکستان کو غیر محفوظ بتانے والوں کا ریکارڈ نکلوا کردیکھیں آپ کو پتا چل جائے گا کہ ہم پاکستان کے وفادار ہیں یا غدار ۔ مجھے امید ہے یہ جاننے کے بعد آپ کو کوئی شک نہیں رہے گا۔
پہلے ٢٠١٠ء میں اور دوسری بار ٢٠١٦ء میں میں یورپ سے پاکستان واپس آیا مگر یہاں پر مجھے مختلف لوگوں سے جن سوالات کا سامنا کرنا پڑا وہ کچھ یوں ہیں:”تم بیوقوف ہو جو اتنا اچھا موقع ہاتھ سے نکال دیا او ر واپس آگئے”۔ “یار تم اُدھر کہیں غائب ہو جاتے پھر یہاں پاکستان میں کیوں آئے ہو”؟ “میں اگر تمہاری جگہ ہوتا تو پاسپورٹ پھاڑدیتا اور پھر کبھی پاکستان واپس نا آتا”۔
یہ چند ایک ہیں اور بہت سے سوال ہیں جن کا سامنا مجھے ہر بار کرنا پڑتا ہے۔ ایسے سوال اس پاکستانی قوم کے ایک بڑے حصے کی سوچ کے آئینہ دار ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ سب پاکستانی ایسے ہی ہیں اچھے بھی ہیں تبھی تو یہ مملکتِ خدادا دابھی تک قائم ہے ۔ ایسی سوچ پال کر یورپ کی برابری کرنے جیسے خواب پالنا فقط دیوانگی ہی ہو سکتی ہے ۔ اپنے وطن سے بے وفائی کرنے والی اقوام کبھی ترقی نہیں کرتیںوہاں طلوع ہوتا ہر دن اُنہیں تنزلی کی طرف ہی لے کر جاتا ہے۔
وہ لوگ جو مجھے ہر بار یورپ میں غائب ہونے کا مشورہ دیتے ہیں اُن کے لیے میراایک ہی جواب ہے کہ میراوجود اس وطن کی مٹی سے سمویا گیا ہے اور میں یہاں ہی سمانا پسند کروں گا۔