تحریر : علی عمران شاہین مقبوضہ کشمیر کا قصبہ ترال، ساری انگار وادی میں اس لحاظ سے منفرد و یکتا ہے کہ یہاں سے ایک سے ایک جوانِ رعنا بھارت کو یہاں سے مار بھگانے کیلئے اول دن سے میدان میں اترا ہے ۔برہان وانی بھی یہاں کے باسی تھے تو آج کے سبزار احمد بھی یہیں کے رہنے والے تھے۔ یہیں 5مارچ 2017ء کے روز وہ خونیں معرکہ بپا ہوا تو یہیں کا ایک باسی حافظ عاقب جان جانِ آفریں کے سپر د کر کے اسی مٹی میں دفن ہو چکا تھا ۔ ایک ایک گھڑی ایک ایک لمحہ گن گن کر بیٹاپال پوس کرجوان کرنے والی ماںلخت جگر دفنا کر فارغ ہوئی تو ساتھ ہی جلوس جنازہ میں آئی خواتین کو لے کر ایک طرف کھڑی ہو گئی اور پھر اس نے ان خواتین سے آزادی کے نعرے لگوانے شروع کر دیئے ۔ منظر بڑا ہی عجیب تھا کہ شہید کی ماں ،’نعرہ تکبیر اور ہم کیا چاہتے ؟’کے الفاظ بلند کرتیں اور جواب میں ‘اللہ اکبر اور آزادی ‘کا پرجوش جواب ملتا۔ یہ شہید خاتون عاقب شہید کی والدہ محترمہ تھیں جسے حافظ قرآن ہونے کی وجہ سے اہل علاقہ مولوی عاقب کہا کرتے تھے۔ عاقب جب ایک اور ساتھی کے ہمراہ شہید ہوا تو بھارتی میڈیا میں ہمیشہ کی طرح بڑے بڑے دعوے ہوئے، عسکریت پسندوں کی کمر ٹوٹ گئی ،بڑا دھچکا لگ گیا، جنگجو شدید دبائو ،شدید مایوسی کا شکار ہوگئے ‘لیکن نہ تب ایسا ہوا اور نہ پہلے اور نہ اب ہو سکا۔
آج 27 مئی 2017ء کا دن ہے اور اسی ترال سے دو شہداء کے جنازے اٹھے ہیں ۔ایک شہید کا نام عاقب ہے، جو حافظ قرآن بھی تھا اور دوسرا شہید 17سالہ بچہ فیضان بٹ ہے جو 5مارچ کو عاقب کی شہادت کے بعد آزادی کے لئے نکلنے والے ایک جلوس میں پوری جرأت و جوش سے شریک تھا۔ دسویں جماعت کا طالب علم اور والدین کایہ اکلوتا بیٹا بھارتی فوجیوں کی سنگسار ی میںپتھر برساتے برساتے بجلی کی چمک سے بھارتی فوجیوں پر جھپٹا تو وہ پیچھے ہٹ کر بھاگ نکلے لیکن ایک فوجی فیضان کے قابو آگیا۔اس نے اسے نیچے گرایا۔لاتوں، گھونسوں کی بارش کر کے اور بے سدھ پڑے فوجی کی کلاشنکوف اس سے چھین کر یہ جا اور وہ جا۔ فیضان کو کیا پتہ تھا کہ بندوق کیسے چلتی ہے ؟لیکن وہ یہ تو جانتا تھا کہ یہ بندوق چلانے اور چلانے کا ڈھنگ سکھانے والے اسے کہاں مل سکتے ہیں؟سو وہ سیدھا اپنی جنت ارضی کی پہاڑیوں کھائیوں میں رہ کر موت کو موت کی جگہ پر تلاش کر کے، پھر اس موت کے منہ میں ہاتھ ڈال کر روز و شب بسر کرنے والے ان مجاہدان حق سے جا ملا جنہیں بھارت 30سال سے شکست دینے میں ہر روز پہلے سے زیادہ بے بس و بے کس ہے ۔اگرچہ اسے اس میدان میںساری دنیا کی حمایت ہی نہیں عملی مدد بھی حاصل ہے۔اس کی ہر طرح کے بے حساب کیل کانٹے سے لیس 10لاکھ افواج اور اس کا ناز گورکھا رجمنٹ تک میدان میں موجود ہیں، لیکن ان کا سب سے بڑا سہارا وہ خودکشی بن چکی ہے جس میں انہوں نے اپنے آج کے سب سے بڑے یار امریکہ کے بعد دوسرا مقام حاصل کر لیا ہے۔
یہیں فیضان، جس کی ابھی تو پوری طرح مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں ، نے چندہی دن میں رزم و حق باطل میں جھپٹنے پلٹنے اور پلٹ کر جھپٹنے کے گر سیکھ لئے اور پھر عظیم بھارت کے لئے درد سر بن گیا۔آج 25مئی کو جب وہ سبزار احمد کے ساتھ موجود تھا تو اس کا محاصرہ ہوا۔یہیں طویل معرکہ آرائی میں انہوں نے کئی سورمے مار گرائے توبھارتی فوج نے اس گھر پر مارٹر گولوں کی بارش شروع کر دی جہاں سبزار اور فیضان موجود تھے۔اب کے انہوں نے اپنے ایک تیسرے ساتھی کو بحفاظت نکالنے کا سوچا، جو ان کی خاطر جان لڑانے کو تیار تھا۔اسی کشمکش میں دونوں نے زخمی حالت میں اچانک باہرنکل کر دوطرفہ حملے کی ترکیب سوچی اور اپنے تیسرے ساتھی کوبالآخر ہزاروں خونخوار فوجیوں کے سخت ترین محاصرے سے نکالنے میں کامیاب ہوکرخود شہادت کا تاج پہنے تاابد سرخروئی بھی پا گئے۔ شہادت سے سرفراز فیضان ہزاروں کے جلوس کی محبتوں کا کاندھا لیے جنت کا راہی بنا تو اس کے ہم جماعت اسے آنسوئوں کے ساتھ اس محبت کا نذرانہ بھی پیش کر رہے تھے جو بھارت کے گلے کی ہڈی بن چکی ہے۔وہ بتا رہے تھے کہ فیضان اسی عمر میں اتنا نیک تھا کہ انہیں اکثر دین کی تبلیغ کرتا،نمازکی تاکید کرتا رہتا تھا اور آج اپنے رب کی بارگاہ میں سر لئے پیش ہو چکا تھا۔
مولوی عاقب کے نام کی نسبت رکھنے والا اور انہی شہداء کا ساتھی بننے والااٹھارہ سالہ حافظ قرآن عاقب شہید دو بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا جوعید کے بعد مزید دینی تعلیم حاصل کرنے دیو بند جانے کامتمنی تھا۔ حافظ عاقب ہفتہ کے روز دن12بجے کمانڈر سبزار احمدکے جنازے میں شرکت کی غرض سے نکلالیکن اس کی قسمت میں تو کچھ اور ہی لکھا تھا۔آج جنازے میں جانے سے پہلے وہ نہایا، پھرخوشبولگا کر دودوستوں کے ہمراہ رٹھسونہ کی جانب چل پڑا ۔اسکے دوست بتانے لگے جنازہ کی طرف جاتے ہم نے سناکہ سبزارکی لاش گھر نہیں پہنچی ، سوہم تینوں سیموہ پہنچے جہاںمعرکہ ہوا تھا ۔وہاں قابض فورسز اور مقامی لوگوں کے درمیان ٹکرائو جاری تھا۔وہاں پہنچ کرہم بھی جلوس میں شامل ہوئے ۔نعرے بازی اور پتھرائو کے بیچ قابض فورسز نے تازہ دم وپرجوش عاقب کے سر کا نشانہ لے کر گولی چلائی۔ عاقب غش کھا کر گرا اور اسکی روح پرواز کر گئی۔ عاقب اپنی چھوٹی بہنوں کا اکلوتا بھائی ہونے کے ساتھ والدین کا واحد سہارا تھاجس نے پونچھ میں مدرسے سے چھوٹی عمر میں قرآن حفظ کیا تھا اور آج کل ایک مقامی دارالعلوم سے مزید دینی تعلیم حاصل کر رہا تھاتو دیو بند جانے کی اس نے تیاری کر لی تھی۔عاقب ان دنوں اپنے گائوں کی مسجد میں باقاعدہ نماز بھی پڑھا تا تھا، عاقب کے والد سرینگر میں نانبائی کی دوکان چلاتے ہیں۔
سیموہ ترال میں بھارتی فوج کو ناکوں چنے چبوا کراللہ کی جنتوں کا مہمان بننے والا اور ایک جہاں کو اپنے خون کی سرخی سے سرخ کر کے نشان منزل بن جانے والے سبزار احمد بٹ کی عمر30سال کے لگ بھگ تھی۔ بھارتی قبضے کی نحوست سے تنگ سبزار احمد کو نئی دہلی کے ہر اثر سے اس قدر نفرت تھی کہ ریاستی کٹھ پتلی پولیس ہر چھوٹے بڑے واقعہ کے بعد سبزار احمد کو تھانے اور فوج کیمپ میں طلب کرتی تھی۔پھر تھانے اور کیمپ میں کشمیریوں پر جو گزرتی ہے اس سے تو اب ہر کوئی واقف ہے۔سبزار کو جب یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے اس سے نجات کا کوئی اور راستہ سجھائی نہ دیا تو وہ جہادی صفوں میں شامل ہونے کے لئے تیار ہو گیا۔اس نے اپنے جگری یار برہان وانی سے کسی طرح رابطہ کیا اور دور ویران پہاڑوں میں اس کے پاس جا پہنچا اور پھر اس کے ساتھ چلنے کی خواہش ظاہر کی۔ وہیں جواب میںبرہان کے کہنے پر وہ ایک مقامی دینی جماعت سے وابستہ ہوا اور تین مہینے کے اندر اندر ہی خود کو اسلامی وجہادی رنگ میںڈھال لیا۔مقامی لوگ بتانے لگے کہ برہان کے کہنے پر وہ باقاعدگی کیساتھ نمازیں ادا کرتا اور اپنا ہر طرح کا چال چلن ہر لحاظ سے مکمل اسلامی سانچے میں ڈھالتا رہا، تب جاکر برہان نے اسے جہادی صفوں میں شامل ہونے کی اجازت دی۔اسے جہادی راہ میں اترنے کی اجازت تو مل گئی لیکن اگلا سوال اس گن کا تھا جس کا حصول اس وادی پرخار میں سب سے جان جوکھم کا کام ہے ۔اسے یہ بھی فکر تھی کہ میں نے اگر برہان کے پاس جا کر گن طلب کی تو وہ میرے لئے الگ سے گن کے انتظام کا بوجھ جانے کیسے اٹھائیں گے، سو اس نے اپنی ہی الگ منصوبہ بندی کی۔
یہ جولائی 2015ء کی بات ہے کہ برہان وانی کے بڑے بھائی خالد وانی اپنے بھائی سے ملنے اس کی کمین گاہ کی جانب روانہ ہوئے کہ بھارتی فوج نے راستے میں گرفتار کر کے اور قتل کر کے انہیں حملہ آور قرار دے دیا۔ فوج کی اس بہیمانہ کارروائی پر ترال کے لوگ سراپا احتجاج تھے کہ مقامی نوجوانوں اور قابض فورسز کے درمیان بس اسٹینڈترال میں زبردست تصادم ہوا ۔ اسی احتجاج میں شامل سبزار احمد بٹ نے درندہ بھارتی فورسز میں سے ایک سی آر پی ایف کے اہلکار کی زبردست پٹائی کر کے اس اہلکار سے اس کی کلاشنکوف گولیوں سمیت اڑا کراسی شام برہان کے پاس پہنچ کر بھارت کی صفوں میں کہرام بپا کر دیا۔ یوں دو بھائی اب ایک راہ کے را ہی تھے۔ 8 جولائی 2016ء کو اسلام آباد میں برہان وانی جام شہادت نوش کر گئے تو سبزار کی بے چینی دیکھی نہ جاتی تھی۔ ایک سال سے بھی کم عرصے میںسبزار ان شاء اللہ برہان کے پاس پہنچ چکا اور اس حدیث کا مصداق بن چکا کہ شہیدوں کی روحیں سبز پرندوں کے پوٹوں میں رہتی ہیں جو عرش معلی کے نیچے لٹکی قندیلوں میں پڑائو کرتے ہیں۔ بھارت پھر کہہ رہا ہے کہ کمر ٹوٹ گئی ، زبردست دھچکا پہنچ گیا لیکن وہ نہیں جانتا کہ ”قتل کرو گے ایک گر ،تو دس مقابل آئیں گے”اور بھارت تیری فوجوں کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔
Logo Imran Shaheen
تحریر : علی عمران شاہین (برائے رابطہ:0321-4646375)