تحریر : پروفیسر رفعت مظہر تحریکِ انصاف کے شفقت محمود ٹاک شوز میں کہتے پھر رہے ہیں ” حکومت اداروں کو متنازع بنا رہی ہے”۔ چونکہ کپتان صاحب کی مہربانی سے لفظ ”شرم” یا ”شرمناک” غیرپارلیمانی نہیں رہے اِس لیے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں ”شرم تم کو مگر نہیں آتی”۔ متنازع بنانے کا ٹھیکہ تو شفقت محمود کے قائد عمران خاں کے پاس ہے ۔ وہ جب سے سیاست میں وارد ہوئے ہیں ، اُنہوں نے سوائے اِس کام کے اور کیا ہی کیا ہے۔2013ء کے انتخابات کے بعد اُنہوں نے سب سے پہلے نگران حکومتوں کو متنازع بناتے ہوئے نگران وزیرِِ اعلیٰ نجم سیٹھی پر پینتیس پنکچروں کا الزام لگایا ، اُن کے یہ پینتیس پنکچر اتنے مشہور ہوئے کہ ریڑھی بانوں کی زبانوں پر بھی چڑھ گئے ۔بعد میں اُنہوں نے یو ٹرن لیتے ہوئے کہہ دیا ”وہ تو سیاسی بیان تھا”۔ الیکشن کمیشن کو متنازع بناتے ہوئے وہ ساری حدیں پار کرگئے حالانکہ الیکش سے پہلے وہ چیف الیکشن کمیشنر کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے رہے۔
انتخابات میں بری ہزیمت کے بعد اُنہوں نے الیکشن کمیشن کو بے ایمان ثابت کرنے اور اُس میں کیڑے نکالنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔اسلام آباد کے ڈی چوک میں 126 روزہ دھرنے کے دوران اُنہوں نے فوج جیسے معتبر ادارے کو متنازع بنانے کی ہر سعی کر ڈالی ۔ وہ بار بار امپائر کی انگلی کھڑی ہونے کا نہ صرف ذکر کرتے رہے بلکہ تاریخیں بھی دیتے رہے ۔یہ الگ بات ہے کہ افواجِ پاکستان کی جمہوریت کے ساتھ کمٹمنٹ کی وجہ سے خاں صاحب کی دال نہ گلی اور امپائر کی انگلی کھڑی نہ ہو سکی ۔اُنہوں نے سپریم کورٹ جیسے انتہائی معتبر و محترم ادارے کو بھی نہ بخشا اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو مخاطب کرکے بار بار کہتے رہے ”آپ کتنے میں بِکے؟”۔ اِس الیکشن کو وہ اُن” ریٹرننگ آفیسرز” کا الیکشن کہتے رہے ،جو سبھی عدلیہ سے کپتان صاحب کی ضِد پر لیے گئے۔ انتظامیہ کے بارے میں کپتان کا فرمان یہ تھا کہ ساری انتظامیہ میاں نوازشریف کے ہاتھوں بکی ہوئی ہے ۔ شفقت محمود صاحب سے سوال ہے کہ وہ کوئی ایک ادارہ ایسا بتا دیں جسے اُن کے لیڈر نے متنازع بنانے کی کوشش نہیں کی۔ اگر وہ ایسا کر سکیں تو جو چور کی سزا ،وہ ہماری۔پھر کیا ہم یہ کہنے میں حق بجانب نہیں کہ ”شرم تُم کو مگر نہیں آتی۔
قائدِحزبِ اختلاف سیّد خورشید شاہ نے کہا ہے کہ اداروں کا ٹکراؤ تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔ اُنہوں یہ بھی کہا ”اداروں کے ساتھ محاذ ارائی پیدا کی جا رہی ہے ،جمہوریت کو کچھ ہوا تو ہم بری الذمہ ہوں گے”۔ کاش کہ سیّد صاحب کو یہ الفاظ اُس وقت بھی یاد ہوتے جب آصف زرداری نے یہ کہا تھا ”تم نے تو تین سال رہنا ہے ،پھر ہم نے ہی ہونا ہے”۔ شاہ صاحب کو یہ بھی یاد ہو گا کہ زرداری صاحب نے کِس کی ”اینٹ سے اینٹ بجا دینے” کی بات کی تھی ۔ اُس وقت جمہوریت کے چیمپیئن سیّد خورشید شاہ کو ڈانواڈول ہوتی جمہوریت کیوں یاد نہیں آئی ؟۔وہ کیوں ”ٹُک ٹُک دیدم ،دَم نہ کشیدم” کی عملی تصویر بنے رہے؟۔ ویسے اطلاعاََ عرض ہے کہ پیپلز پارٹی کے دَورِ حکومت میں عدلیہ فیصلے تو ضرور کرتی رہی لیکن پیپلزپارٹی نے کبھی بھی اُن فیصلوں کو دَرخورِ اعتنا نہیں سمجھا ۔آج شاہ صاحب جمہوریت کے عشق میں مجنوں بنے پھرتے ہیں لیکن چند سال پہلے تک تو یہی جمہوریت پیپلزپارٹی کے دَر کی باندی ،گھر کی لَونڈی بنی بیٹھی تھی۔ اِسی جمہوریت کو ”بہترین انتقام” کے لیے یوں استعمال کیا گیا کہ ساری ملکی دولت کرپشن کی نذر ہو گئی ۔شاہ صاحب کا اپنا دامن کرپشن سے آلودہ نہ سہی لیکن اگر وہ اپنے دائیں بائیں نگاہ دَوڑا کر دیکھیں تو اُنہیں اُس دَور میں ”غضب کرپشن کی عجب کہانیاں” ہی نظر آئیں گی ۔تَب شاہ صاحب کو جمہوریت بچانے کا خیال کیوں نہیں آیا؟۔شاہ صاحب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اُن کے لیڈر آصف زرداری اور تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خاں ،دونوں براہِ راست اداروں کو نشانۂ تنقید و تضحیک بناتے رہے لیکن تا دَمِ تحریر میاں نوازشریف یا اُن کے خاندان میں سے کسی نے بھی اداروں پر نہ صرف یہ کہ تنقید نہیں کی بلکہ اُن کی مضبوطی کا ہی پیغام دیتے رہے۔
میرے محترم قارئین جانتے ہیں کہ میں نے ہمیشہ ہلکے پھلکے کالم لکھنے کو ہی ترجیح دی ہے لیکن پچھلے کچھ عرصے سے ملکی حالات کی پے دَر پے کروٹوں نے ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ قلم مزاح لکھنے سے یکسر باغی ہو گیا ہے ۔پاناما لیکس ،ڈان لیکس، سرحدوں پر بھارتی چھیڑچھاڑ ،مقبوضہ کشمیر میں”بھارتی سورماؤں کی چنگیزیت، برادر اسلامی ملک افغانستان کابھارت کی جھولی میں بیٹھنا اور برادر ایران کی ناراضی ،یہ سب ایسے معاملات ہیں کہ جن کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے مزاح لکھنے کو جی ہی نہیں چاہتا ۔بَس ایک سی پیک ہی ہے ،جدھر سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آتا ہے لیکن وہ بھی سازشوں کی زَد میں ہے ۔بخدا ہمیں نوازلیگ سے کچھ لینا دینا ہے نہ میاں برادران سے ،ہمیں تو اِس دھرتی ماں سے پیار ہے جہاں ہم پیدا ہوئے اور جِس مٹی میں دفن ہونا ہے۔
اگر نوازلیگ کے لیے کوئی نرم گوشہ ہے تو صرف یہی کہ وہ ملک کو معاشی رفعتوں سے روشناس کرانے کی تگ و دَو میں ہے ۔ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگوں کو اِس پر بھی اعتراض ہو لیکن ہم تو ظاہر کو دیکھتے ہیں ،دلوں کے بھید تو خُدا جانتا ہے اور ظاہراََ یہی نظر آتا ہے جو ہم نے کہا ۔اب میاں فیملی بھی بادِ سموم کے تھپیڑوں کی زَد میں ہے ۔ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں وہ اپنی تمامتر توجہ ملکی بہتری پر صرف نہیں کر سکتے ۔اب کی بار اُن کا ”مَتھا” براہِ راست عدلیہ سے جا لگا ہے جو انتہائی خطرناک ہے ،نہ صرف میاں برادران کے لیے بلکہ جمہوریت کے لیے بھی۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی خبروں کے مطابق انتہائی محترم جسٹس صاحبان کو متنازع بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ،جس میں( معذرت کے ساتھ )کچھ قصور جسٹس صاحبان کا بھی ہے۔ ہم نے تو سنا تھا کہ ججز کے فیصلے بولتے ہیں لیکن یہاں تو ججز خود ہی بولنے لگے ، کوئی مانے یا نہ مانے ، اعلیٰ عدلیہ تو مان چکی کہ وزیرِاعظم عوام کے منتخب نمائندے ہیں ۔یقین نہ آئے تو الیکشن 2013ء پر سپریم کورٹ کے فُل بنچ کا فیصلہ اٹھا کر دیکھ لیجئے ،جس نے واضح اور متفقہ فیصلہ دیا کہ انتخابات میں کوئی دھاندلی نہیں ہوئی اور یہ عوام کی رائے کا واضح اظہار ہیں۔
اگر سپریم کورٹ کے مطابق یہ انتخابات عوام کی رائے کی عکاسی کرتے ہیں تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ میاں نوازشریف عوام کے منتخب وزیرِاعظم ہیں ۔پھر اُنہیں کبھی ”گاڈ فادر” اور کبھی ”سسلین مافیا” کہنا کہاں کا انصاف ہے؟ ۔کیا یہ پاکستان اور پاکستان کے باسیوں کی توہین نہیں کہ اُنہوں نے ایک ایسے شخص کو اپنا وزیرِاعظم منتخب کر لیا جسے اعلیٰ ترین عدلی ”ڈان” کا خطاب دے رہی ہے؟ ۔عدلیہ کا احترام بجا ،اُس کے فیصلوں پر بھی سرِتسلیم خم لیکن کیا کبھی معزز ججز بھی ”ایسی زبان” استعمال کرتے ہیں۔عمران خاں اب متواتر ”گاڈفادر” کی رَٹ لگا رہے ہیں اور ساری اپوزیشن محترم جسٹس آصف سعید کھوسہ کے الفاظ کو دُہرا رہی ہے ۔ابھی یہ معاملہ بیچ ہی میں تھا کہ محترم جسٹس عظمت سعید نے حکومت کو ”سسلین مافیا” اور اٹارنی جنرل کو اُس کا نمائندہ قرار دے دیا ۔حالانکہ تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل کے بارے میں بھی وزیرِاعظم صاحب نے خود ہی خط لکھا تھا اور اب وہ اپنی تین نسلوں کا حساب بھی خود ہی دے رہے ہیں ۔جے آئی ٹی کیسے تشکیل پائی ، اِس کی تشکیل میں رجسٹرار سپریم کورٹ اور معزز جج صاحبان کا کتنا ہاتھ ہے ،یہ سب اب میڈیا کی زینت بن چکا ہے اور اور نواز لیگ کے شدید مخالف اعتزاز احسن بھی بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ اِس معاملے کی تہ تک پہنچنا چاہیے ۔اُنہوں نے کہا ”اگر جے آئی ٹی کے لیے ججز نے نام تجویز کیے ہیں تو نوازشریف کے انصاف نہ ملنے کے خدشات کو تقویت ملے گی۔
اگر سپریم کورٹ کے ججز اِس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ اُنہوں نے ہی رجسٹرار سے کہہ کر جے آئی ٹی میں عامر عزیز اور بلال رسول کا نام تجویز کروایا تھا تو اِس سے نوازشریف کے اِن تحفظات میں وزن آ جاتا ہے کہ اُنہیں انصاف نہیں ملے گا”۔ معزز ججز سے بہتر کون جانتا ہے کہ فیصلہ آنے سے پہلے کسی بھی ملزم کو مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ابھی تو انکوائری ہو رہی ہے اور جن پر الزام ہے ،وہ بھی انکوائری کمیشن میں متواتر پیش ہو رہے ہیں۔ انکوائری کمیشن کی رپورٹ آنے میں ابھی چالیس دِن باقی ہیں لیکن جج صاحبان کی باتوں سے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے فیصلہ آ چکا اور میاں صاحب کا خاندان مجرم بھی ثابت ہو چکا ۔ دست بستہ عرض ہے کہ اِن حالات میں اور کسی کا نقصان ہو نہ ہو ،جمہوریت بادِ سموم کے تھپیڑوں کی زَد میں ضرور آ جائے گی جو ملک کے لیے بہتر ہو گا نہ قوم کے لیے۔