تحریر : شیخ خالد زاہد ہمارے اطراف میں رونما ہونے والے حالات و وقعات ہماری سوچ پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں یا یہ کہیں کہ ہمارے اذہان کو رنگنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں، پھر یہ رنگ ہماری سوچوں پر چڑھا ہوا بھی نظر آنے لگتا ہے۔ لیکن کسی حد تک تعلیم اس عمل میں ڈھال کا کردار ادا کر سکتی ہے، افسوس اس بات کا ہے کہ تعلیم ہی کے فقدان کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور ہمیں بہت آسانی سے ورغلایا جاتا رہا ہے۔ جہاں تک ایک عام آدمی (جو کسی حد تک تعلیم سے بھی نا بلد ہوتا ہے) کا تعلق ہے وہ ان اثرات سے بھرپور طرح سے متاثر ہوتا ہے اور اپنی سوچ میں ان حالات و وقعات کی روشنی میں تبدیلی لانا شروع کر دیتا ہے۔
ایک طبقہ ایسا بھی ہوتا ہے جسے قدامت پسند کہا جاتا ہے اپنی اقدار میں ہی زندگی کو گزارنے میں عافیت اور افضلیت کا گمان رکھے زندگی کی گاڑی کھینچتے چلے جاتے ہیں، اس طبقے میں کچھ نا کچھ تعلیم بھی مل جاتی ہے یا پھر یہ تعلیم سے اتنی آگہی ضرور رکھتے ہیں کہ اپنی اقدار اور اپنی خاندانی روایات کو باآسانی چلا سکیں۔ اس ساری صورتحال میں صحافی کی رسائی معاشرے کے تمام طبقات اور حلقوں تک ہوتی ہے، خبر سے باخبر رہنے کی خواہش ہر کسی کی ہے اور خبر کو اخبار کی زینت بنانا ایک صحافی کا کام ہے، یہی صحافی خبر کو دوا بناتے ہیں اور زہر بنانے کا ہنر بھی انہیں ہی آتا ہے ان تمام چیزوں پر غور کیا تو ہمیں بلکل ایسا محسوس ہوا کہ صحافی ہی دراصل سیاسی طبیب ہوتے ہیں۔
ہمارے ملک میں جہاں لسانی تفریق اپنے عروج پر پہنچی ہوئی ہے تو اس بات سے کیسے اختلاف کیا جاسکتا ہے کہ جو زبان بولنے والے سب سے زیادہ اکثریت میں ہونگے وہ اپنی زبان کو قومی زبان کا درجہ دینے کیلئے کوششیں کرنے کا حق رکھتے ہیں اور ملک میں نافذ قومی زبان جو قائدِاعظم محمد علی جناح کی رائج کردہ زبان ہے اسے چیلنچ بھی کیا جا سکتا ہے۔ بات اتنی آسان نہیں ہے جتنی کہنے اور پڑھنے میں لگ رہی ہے۔ دراصل ہاتھ کی پانچ انگلیوں میں اختلاف رکھا ہی اس لئے گیا ہے کہ اس بات کو سمجھانے میں آسانی رہے، ایسی بات جب بھی ہوگی تو اکثریتی زبان بولنے والوں میں بھی اختلاف پایہ جائے گا کیونکہ وطن سے محبت اور وطن بنانے والوں سے محبت کرنے والے آج بھی پاکستانی ہونے پر فخر کرتے ہیں، لاکھ لسانیت نے اس ملک میں اپنی مضبوط جڑیں پھیلا رکھی ہیں مگر اتنی بھی نہیں کہ پاکستان کی آساس کو للکار سکے۔
دنیا میں میڈیا کی تمام اقسام کلیدی حیثیت اختیار کر چکے ہیں اور حیثیت کو کلیدی بنانے میں صحافتی برادری نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ کچھ لوگوں نے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اندازہ لگا لیا تھا کہ درجہ حرارت کس حد تک بڑھے گا کچھ خوف ذدہ ہوکر پیچھے ہوگئے اور کہیں پیچھے ہی رہ گئے۔ کچھ مخصوص لوگوں نے اس میڈیا کی مرہونِ منت انتہائی اعلی مرتبت عہدے بھی حاصل کر رکھے ہیں اور اب تو ان کی حیثیت کسی اعلی سیاسی طبیب سی ہوچکی ہے ۔ طبیب کیلئے فرض ہے کہ اپنے مریض کا علاج کرے ان تمام وجوہات سے قطع نظر کے اسکا تعلق کس علاقے سے ہے یا پھر کس مذہب سے ہے یا اسکا سیاسی رجھان کس جانب ہے۔ سیاسی طبیب ملک کی نبض سے بہت اچھی طرح واقف ہوتے ہیں اور یہ سیاسی ڈھانچے کو اندر سے بھی خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔
بروقت علاج تو فراہم نہیں کرسکتے مگر ایک قسم کی آگاہی مہم کے توسط سے مطلع کر دیتے ہیں کہ کس قسم کی سیاسی صورتحال آنے والے وقتوں میں پیداہونے والی ہے اور تو اور یہ سیاسی طبیب حکومت بنانے والوں کو بغیر الٹرا ساونڈ کئے پیشگی مبارکباد کے ڈھکے چھپے اشارے بھی دے دیتے ہیں۔ طبیب کسی بھی مرض کا ہو طرفداری سے کسی کو فائدہ پہنچے یا نا پہنچے مگر مروجہ نظام کو نقصان ضرور پہنچتا ہے اور جب نظام کو نقصان پہنچتا ہے تو نظام کے درھم برھم ہونے کے قوی امکانات روشن ہوجاتے ہیں۔ یہ سب وقتی فائدے کیلئے کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی بد قسمتی یہی ہے کہ یہاں لوگ وقتی فائدہ اٹھانے کیلئے دیرپاء نقصان کو دعوت دے دیتے ہیں۔
سیاسی طبیب ہونے کے ناطے سے صحافتی برادری کو کسی کی جانبداری زیب نہیں دیتی معاشرے میں ایسے لوگوں پر عام لوگوں کی توجہ مرکوز ہوتی ہے اور عام لوگ ان سیاسی طبیبوں کی جہاں بہت عزت و تکریم کرتے ہیں تو دوسری طرف ان کی کہی ہوئی باتوں پر بھرپور عمل درآمد بھی کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔ میں اپنے صحافی بھائیوں سے یہ درخواست کروںگا کہ خدارا صرف اور صرف حق اور سچ کو عوام تک پہنچائیں یہ بہت ہی سیدھے سادھے لوگ ہیں آپ کی کسی بھی جھوٹی یا غلطی کی بدولت دشمنیاں مول لے لیتے ہیں۔ آپ حقیقت میں سیاسی طبیب ہیں اور ہمارے معاشرے میں لوگ خدا سے زیادہ طبیب کی بات پر زیادہ عمل کرتے ہیں۔