تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی میرے سامنے حسن و جمال کی پیکر خوبصورت ترین جوان لڑکی بیٹھی ہوئی تھی، کبھی وہ اپنی دراز ریشمی زلفوں کو جھٹکے سے سیدھا کرتی کبھی چٹکی میں سیاہ چشمہ گھمانا شروع کر دیتی، سرخ سیب کی قاشوں جیسے باریک ہونٹوں کی سرخی نے اُس کے حسن کو آگ لگا رکھی تھی، کا جل لگی آنکھوں کی مخمل اور بھی گہری ہوگئی تھی، اُس کی آنکھیں نہیں تھیں دودھ کے سمندر میں ڈارک برائون جھاگ کے جزیرے تھے، اُس کے برائون دیدوں کی سحر انگیز کشش دیکھنے والے کو سنگی مجسمہ بنا دیتی، اُس کی آنکھیں بہت خوبصورت برائون چمکدار اُس کے جسم اور ریشمی زلفوں کو چھونے والی ہوا، خوشبوئوں سے لبریز ہوکر جہاں جہاں جاتی، وہاں وہاں خوشبوئوں کے ڈیرے ڈال دیتی، اُس کے جسم کو چھونے والے جھونکے خوشبوئوں کی خیرات لے کر دور دراز تک ماحول کو سحر انگیز بنا دیتے، اُسکے یاقوتی ہونٹوں سے الفاظ پھولوں کی طرح جھڑتے، تو سریلے جھرنوں میں رقص کرتی، موجوں کا احساس ہوتا اُس کی جادو نگار زبان حرکت میں آتی سماعتیں عقیدت و احترام سے اپنی جھولیاں پھیلا دیتیں۔
اُس کی گجرالی آنکھوں سے ریشمی مشکیں زلفوں سے گھٹائیں فیض لیتیں، اُس کے چہرے کی لالی کے سامنے گلاب کے پھول شرمندہ ہوتے ہونگے، اُس کی غزالی آنکھوں کے اٹھنے اور جھکنے سے بجلی کے کوندے لپکتے ہوں گے، اُس کی سرمہ آلود ایک نظر کسی کو ہمیشہ کے لیے نشے میں غرق کر دیتی ہوگی، اُس کے لہجے کی تھکن سے چاند کے ڈوبنے کا منظر یاد آتا ہوگا، اُس کے گلابی آنچل کے ہوا میں لہرانے سے پھولوں کی برسات ہوتی ہوگی، کاجل لگی آنکھوں کی چمک کے سامنے چاند بھی شرماتا ہوگا، صرف ایک بار جھانک کر چلمن ڈالنے سے گردنیں ڈھلک جاتی ہونگیں، دو قدم چلنے سے فتنہ محشر یاد آتا ہوگا، نیم باز آنکھیں شراب مستی کا نشہ پھیکا کر دیتی ہونگیں، گیسو کی شکن ہرحرکت کو بُت میں تبدیل کرتی ہوگی، گداز خوشبوئے بدن کی بجلیاں پروانوں کو خاکستر کرتی ہونگیں، چشم ِ غزالاں مے خانے نشے سرور کی بھیک مانگتے ہونگے، اِس کے آنے سے محفلیں مے کدوں میں تبدیل ہوتی ہونگیں، پانی کے گلاس میں انگلی ڈبو کر اُسے vine میں تبدیل کرتی ہوگی، اُس کی قربت میں وقت تھم جاتا ہوگا، لوگ بہانوں سے پروانوں کی طرح اُس کا طواف کرتے ہونگے، اس کو پانے کے لیے سینکڑوں پروانے ہر وقت تیا ر رہتے ہونگے، وہ سر سے پائوں تک حسن کا لا زوال شاہکار تھی۔
پرانے زمانوں میں یقنا ایسے ہی پیکر حسن کے لیے بادشاہ فوجوں کے لشکر لے کر دوسرے ملک پر چڑھ جاتے ہونگے، اس کے ابروئے چشم پر کوئی بھی سلطنت تاج و تخت ٹھکرانے پر تیار ہو جاتا ہوگا، خالق کائنات نے خوب کھل کر اِس پر حسن کی برسات کی تھی، اُس کے لازوال شاہی حسن کو دیکھ کر خدا کے منکروں کو بھی خدا یا د آتا ہوگا، وہ سر سے پا ئوں تک مکمل تھی بھر پور تھی، حسن بلا شبہ خدا ئے بزرگ بر ترکا تحفہ خاص ہے، وہ بے نیاز خالق جسے چاہے دے دیتا ہے، کائنا ت کا چپہ چپہ خالق کی جادونگری کا پتہ دیتا ہے۔
خالق کا ئنات کے ہو نے کا احساس دلا تا ہے یہ حسن ہی تو ہے جو پھول میں مہک چہرے میں گداز اور تبسم میں ملا حت بن کر جلو ہ افروز ہو تا ہے یہی حسن کردار میں ہو تو عظمت رو ئیے میں ہو تو شرافت اور مقا صد میں ہو تو عزیمت بن جاتا ہے یہی حسن شعور کو معرفت اور فکر کو بصیرت عطا کر تا ہے گفتگو میں فصاحت اسلوب میں بلا غت خیال میں قدرت اور ابلا غ میں سلاست اور جب یہ عطیہ خدا وندی حسن لہجے میں ڈھل جا ئے تو حلا وت نظرمیں آئے تو مروت اور دل میں آئے تومحبت کہلاتا ہے اور ماتھے سے جھلکے تو سعادت اور پیکر سے چھلکے تو نزاکت کا روپ دھا رلیتا ہے اور جب حسن سیا ست میں آجائے تو اُسے عبادت قانون میں آجائے تو عدالت اور حکمرانی میں آجائے تو سراپا خدمت کہا جاتا ہے انسان بلا شبہ خد اکی تخلیق کا شاہکار ہے خوش قسمت ہو تے ہیں وہ لو گ جن کو اللہ تعالی ظاہری حسن کے ساتھ ساتھ با طنی حسن کی عظیم نعمت سے بھی نوا زتا ہے ایسے ہی لو گ اپنے آپ کو پا لیتے ہیں اورجو خو د کو پالے اُس نے راز الٰہی اور راز کائنات کوپا لیا انسانوں کے ہجوم میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہو تی ہے جو ظاہری حسن سے مالا مال ہو تے ہیں لیکن جب آپ کا واسطہ اُن کے کردار سے پڑتا ہے تو اُن کے ظاہری حسن کا بت پاش پا ش ہو جاتاہے اُن کے با طن کی گندگی اور زہر اُن کی اصل حقیقت سے آگا ہی عطا کر تی ہے میرے سامنے بیٹھی خو برو لڑکی ظاہری حسن کے ساتھ ساتھ با طنی حسن کردار کی نعمت سے بھی خو ب مالا مال تھی میں نے جب اُس سے پو چھا کہ وہ میرے پاس کیوں آئی ہے تو اُس نے بتا یا کہ وہ ہر سال رمضان میں ضرورت مندو ں کے گھروں میں سحری افطاری کے لیے راشن ڈالتی ہے۔
میری دوست نے آپ کا بتا یا کہ آپ کے پاس بہت ضرورت مند لوگ آتے ہیں تو میں آپ کے پاس آئی ہوں آپ یہ ایک لا کھ روپے رکھ لیں اُن ضرورت مندوں کے گھر راشن یا پیسے دے دیں جس کو ضرورت ہے مجھے اُس کی نیکی اور خدمت خلق کا جذبہ بہت پسند آیا میں ستا ئشی نظروں سے اُس کو دیکھ رہا تھا کہ اللہ تعالی نے اُسے ظا ہری حسن کے ساتھ ساتھ با طنی حسن سے بھی نواز رکھا تھا میں نے پیسے لینے کے لیے اُس کی طرف ہاتھ بڑھا یا تو رسمی سا سوال کر دیا آپ کر تی کیا ہیں تو وہ بو لی میں مُجرا کر تی تھی میں مشہور و معروف ڈانسر ہوں لیکن اب میں ڈانس سے تو بہ کر چکی ہوں۔
میرا آگے بڑھنے والا ہا تھ ر ک گیا بلکہ میں نے اپنا ہا تھ واپس کر لیامیں نے پیسے لینے سے انکا ر کر دیا میرے انکار سے اُس کی بڑی بڑی گجرالی آنکھوں میں درد کی نمی تیرنے لگی شرمندگی اداسی کے سائے اُس کے دلنشیں چہرے پر لہرانے لگے وہ دل سوز لہجے میں بو لی سرکیا میں نیکی نہیں کر سکتی کیا میں قابل نفرت ہوں اُس کے لہجے میں شامِ غریباں کا غم شامل ہو چکا تھا سر آپ بھی مو لوی ہی نکلے سر آپ بھی عام انسان ہی نکلے میں اُس سے نظریں چرا رہا تھا میرے پاس اُس کی با توں کا جواب نہیں تھا اُس نے اندر کے درد اُس کی خوبصورت آنکھوں سے مسلسل چھلک رہا تھا شاید اُس کے پرانے زخم تا زہ ہو گئے تھے سر میں میرا تعلق ایک گا ئوں سے ہے بچپن میں ہی والدین مجھے بے رحم زمانے کی ٹھوکروں کے حوالے کر کے اگلے جہاں سدھار گئے رشتے داروں کے بچے ٹکڑوں پر پلتی جوان ہوئی تو لا ہو ر نوکری کے لیے آگئی زیا دہ پڑھی لکھی نہیں تھی اپنی خو بصورتی کی وجہ سے ہر جگہ نوکری مل جا تی چند دن بعد ہی ما لک کی گندی سوچ سامنے آجاتی جب میں اُس کے بیڈ روم میں جانے سے انکار کر تی تو نو کری سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی۔
ایک جگہ سے دوسری جگہ میں رولنگ سٹون کی طرح ٹھوکریں کھا تی رہی اسی دوران ایک نیک شخص نے مجھ سے دوسری شادی کر لی لیکن سال بعد ہی ایک بیٹے کا تحفہ دے کر وہ بھی انتقال کر گیا اُس نے ایک دوکان میرے نام کی ہو ئی تھی اب میں نے اُس کے کرائے پر گزارہ کرنا شروع کر دیا لیکن یہ کرا یہ بہت تھوڑا ہو تا تھا اب میں نے بیوٹی پارلر میں جاب شروع کر دی پارلر کی مالک گدھوں کی طرح ہم سے کام لیتی پیسے بہت کم دیتی پا رلر کی مالک نے مجھ پر چوری کا جھوٹا الزام لگا کر مجھے تھانے بند کرا دیا تو پا رلر پر میری ایک گا ہک جوڈانسر تھی اُس کو میں نے فون کیا اُس نے میری مدد کی تو میں قید سے رہا ہو ئی اب میں اپنی ڈانسر دوست کے ساتھ رہنا شروع ہو گئی زمانے کے رویوں سے میں تنگ آچکی تھی ڈانسر دوست کے کہنے پر میں نے بھی ڈانس کو دھندے کے طو ر پر اپنا لیا اپنی بے پنا ہ خو بصورتی کی وجہ سے چند دنوں میں ہی ہٹ ہو گئی جتنے پیسے میں نے کئی سالوں میں نہیں کما ئے تھے اب میں ایک رات میں کما لیتی تھی میں نے لاکھوں کا نام سنا تھا اب ایک رات میں لاکھوں روپے کما لیتی میں نے چند سالوں میں ہی کا ر کو ٹھی اور بنک بیلنس بنا لیا کیونکہ میں فطری طو ر پر شریف تھی جیسے پیسے آئے تو میں نے تو بہ کرلی اور ڈانس کا دھندہ چھو ڑ دیا اب مجھے دوکانوں اور گھروں سے اتنے پیسے مل جاتے ہیں کہ میرا اور میرے بیٹے کا اچھا گزارا ہو جاتاہے لیکن جو پیسے میں آپ کو دینے آئی ہوں یہ میرے دھندے کے پیسوں سے نہیں ہیں یہ میرے مرحوم خاوند کی دی ہو ئی دوکان کے کرائے کے پیسے ہیں جو ہلال ہیں میں سارا سال یہ جمع کر تی ہو ں اور پھر رمضان میں اللہ کے لیے لوگوں کے گھروں میں راشن ڈالتی ہوں اُس کی آنکھوں سے نکلنے والے مسلسل تو بہ کے آنسوئوں سے پیسے بھیگ چکے تھے میں نے ہا تھ بڑھا یا اور تو بہ کے آنسوئوں سے دھلے پیسوں کو پکڑ کیا کیونکہ کسی بھی آنکھ سے نکلنے والے توبہ کے آنسو پر وہ شخص جنم کی آگ سے محفوظ ہوجاتاہے میرے سامنے بیٹھی لڑکی کے سامنے مجھے خدمت خلق کے بڑے بڑے چھتیں کیڑے مکوڑوں کی طرح نظر آ رہی تھیں۔