قطر سے چھ عرب ملکوں نے سفارتی تعلوقات ختم کر دیے

Qatar

Qatar

تحریر : میر افسر امان
مسلم ملک قطر سے چھ عرب مسلم ملکوں نے اپنے سفارتی تعلوقات منقطع کر دیے ہیں۔ان میں سعودی عرب، مصر، عرب امارات،یمن، لیبیااور بحرین شامل ہیں ۔قطر کو عرب مسلم امریکا فوجی اتحاد سے بھی خارج کر دیا گیا ہے۔ خلیج تعاون کونسل میںصرف عمان واحد ملک رہ گیا ہے جس کی قطر سے تعلوقات باقی ہیں۔ ویسے بھی عرب مسلم امریکی فوجی اتحاد بنتے وقت بھی قطر کے اتحاد کے روہے رواں سعودی عرب سے تعلقات درست نہیں تھے۔ قطر ایران کی حمایت میں بیان بازی کرتا تھا۔

قطر پر الزام لگایا گیا ہے کہ قطر انتہا پسند تنظیموں جن میں اخوان المسلمون دولتِ اسلامیہ اور دیگر شدت پسند اور مسلکی تنظیموں کی حمایت کرتا ہے۔ اپنے علیحدہ علیحدہ بیانات میں سعودی سرکاری خبر رساں ادارے ڈبلیو اے ایم نے کہا کہ سفارتی تعلوقات منقطع کرنے کے ساتھ سعودی قیادت میںیمن کے حوثی باغیوں کے خلاف سرگرم عسکری اتحاد سے بھی نکال دیا ہے۔سعودی کی سرکاری نیوایجنسی کا کہنا ہے کی اس اخراج کی وجہ یہ ہے کہ قطر کے اقدامات سے دہشت گردی مظبوط ہو رہی ہے۔قطر القاعدہ،داعش اور باغی ملیشیا جیسی تنظیموں کی حمایت کرتا ہے۔ فضائی کمپنی اتحاد ایئرویز نے اپنی تمام پروازیںروکنے کا اعلان کر دیا ہے۔بحرین نیوزایجنسی نے کہا کہ مملکت دوحہ کے ساتھ اپنے رشتے منقطع کر رہی ہے۔اس کا الزام ہے کہ دوحہ اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔اس کی سلامتی اور استحکام کو متزلزل کر رہا ہے۔

مصر کی وازت خارجہ نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ مصر نے قطر کے ساتھ اپنے سفارتی تعولقات منقطع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس نے یہ بھی کہا کہ وہ قطری ہوائی جہازوں کے لیے اپنی ایئر پورٹ اور بحری جہازوں کے لیے اپنی بندرگائیں بند کر رہا ہے۔ مصر کا یہ کہنا ہے کہ اس نے اپنی سلامتی کے لیے یہ سب کچھ کیا ہے۔ابوظہبی نے دوحہ پر دہشت گرد انتہا پسند اورمسلکی تنظیموں کی حمایت کا الزام لگایا ہے جن پر خطے میںامن کو خراب کرنے کاالزام ہے۔اسلامی دنیا میں ان ممالک کے بیانات کو اور قطر سے رابطے منقطع کرنے کوخلیجی ممالک میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی ایس پی اے نے کہا ہے کہ سعودی عرب قطر کے ساتھ اپنے سفارتی تعلوقات منقطع کر دیے ہیں۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خطرات سے بچنے اور قومی سلامتی کے پیش نظر ، قطر کے ساتھ اپنی سرحدوں کو بھی بند کر رہا ہے۔ الجزیرہ ٹی وی چینلز کا دفتر بھی بند کر دیا گیا ہے۔

متحدہ عرب امارات نے قطر کے سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کے لیے ٤٨ گھنٹے کی مہلت دی ہے۔ یاد رہے کہ قطر کے ہوائی جہاز یمن میں حوثی قبائل کی بغاوت کچلنے کے لیے اتحادی فوجیں استعمال کرتی رہی ہیں۔ تا حال ان بیانات کے بارے میں قطر کا نقطہ نظر سامنے نہیں آیا۔سفارتی تعلوقات منقطع کرنے کے اعلان ان ممالک کی جانب سے قطری نیوز ویب سائٹس بلاک کیے جانے کے واقعے کے دو ہفتے بعد کیے گئے۔یہ ویب سائٹس قطری امیر تمیم بن محمدالثانی کے ان بیانات کی آن لائن اشاعت کے بعد بلاک کی گئی تھیںجس میں وہ سعودی عرب پر کڑی تنقید کرتے دکھائی دیے تھے۔قطری حکومت نے ان بیانات کو جعلی قرار دیا تھااور اسے شرمناک سائبر جرم کہا تھا۔ قطر نے کہا کہ ان اقدام سے قطری شہریوں پر کوئی بھی اثر نہیں پڑے گا۔ جبکہ قطر سے سعودی سفر کرنے والے پاکستانی عمرہ زائرین کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کو سعودی جانے کے لیے فلائٹس نہیں مل رہیں۔ پی آئی کے کنٹری منیجر نے اس کا نوٹس لیا ہے۔کوشش کر رہے ہیں کہ پی آئی اے ان کوسعودی بھیجنے کے لیے جہازوں کا انتظام کرے۔ اُدھر پاکستان نے اس موقعہ پر اعلان کیا ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ امت کے اتحاد واتفاق کی بات کی ہے۔

موجودہ حالات میں پاکستان قطر کے ساتھ تعلوقات ختم نہیں کر سکتا۔ ویسے بھی پاکستانی حکمران کی قطر کے ساتھ ذاتی تعلوقات ہیں۔پاناما کیس میں قطری شہزادے کے خط کی بڑی اہمیت ہے۔ پاکستان نے
قطر سے کیس کے معاہدے کیے ہوئے ہیں دونوں ملکوں کے مفادات ہیں۔ دوسری طرف سعودی عرب میںنواز شریف خاندان جلاوطنی کے دوران مہمان رہ چکا ہے۔ سعودی حکومت کے بھی شریف خاندان کے ساتھ تعلوقات ہیں۔ پاکستان نے کسی ایک کا ساتھ دینے کے بجائے مذاکرات سے مسئلے کو حل کرنے پر زور دیا ہے۔ ایران نے بھی فریقین کے درمیان اختلافات کی سورت میں مذاکرات پر ہی زور دیا ہے جوایک اچھی سوچ ہے۔ ترکی نے ان اختلافات پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے۔ترکی کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ برادر اسلامی ملکوں میں اختلافات کی سورت میں ثالث کا قردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ امریکا نے بھی روایتی طور پر مذاکرات کے لیے کہاہے۔خلیجی ملکوں میں اس تنازہ کی وجہ سے تیل کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔ صاحبو! قطر اور سعودی عرب کے درمیان یہ اختلافات کافی دنوں سے چل رہے تھے۔

ایران کی طرف سے عراق میں سالہا سال سے قائم صدام کی سنی حکومت کی فوجی مداخلت سے تبدیلی اور شعیہ حکومت قائم کرنے ، شام میں بشار الاسد کی شامی سنی اکثریت پر ناجائز قبضے کے حق میں ایرانی فوجیوں کی کھلم کھولا جنگ میں شرکت اور یمن میں شعیہ حوثی قبائل کو فوجی ٹرنینگ اور میزائل سمیت اسلحہ کی فراہمی کے خلاف سعودی حکومت نے ساری اسلامی دنیا کو اس دہشت گردی اور ایک دوسرے کے ملکوں میں اثر نفوذ کے خلاف عرب ، اسلامی ملکوں اور امریکا کو بھی اکٹھا کر کے ایک فوجی اتحاد تشکیل دیا تھا۔ اس فوجی اتحاد کی سربراہی پاکستانی فوج کے سابق سپہ سالار کو سونپی گئی تھی۔ اس اتحاد کی قطر مخالفت کرتا رہا ہے اور ایران کی جارحیت کی بھی حمایت کرتا رہا ہے،اب سعودی عرب کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ قطر کو اس فوجی اتحاد کی پالیسیوں پر چلنے کی تلقین کرتا اور نہ ماننے کی شکل میں قطر کے ساتھ اپنے تعلوقات کو ختم کرتا جو اس نے بلآخر کر دیے۔قطر کو بھی مسلم امہ کی اجتماہی پالیسیوں کے ساتھ چلنا چاہیے تھا نہ ایک ڈیڑھ انچ کی اپنی مسجد بنانے پر زور دیتا۔ہم اکثر اپنے کالموں میں امہ کے اتحاد کی بات کرتے رہے ہیں۔ ایران سے بھی درخواست کرتے رہے ہیں کہ وہ مسلم ملکوں کے ساتھ اپنے جارحانہ رویے پر نظر ثانی کرے۔

ایران کے عراق پر قبضے کے وقت یہ بیان کہ ترک ہمارے ازلی دشمن ہیں ان سے ہم اپنے علاقے واپس لے رہے ہیں۔ حزب اللہ شعیہ ملیشیا کے سربراہ کی طرف سے بیان کہ ہم مکہ اور مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں۔بھارت کے نقطہ نظر کی حمایت میں آئے دن پاکستان کی سرزمین پر راکٹ باری کرنااور اس جیسے اقدامات کی وجہ سی ایران کے خلاف عرب سنی دنیا میں خصوصی اور اسلامی ملکوں میں عمومی تشویش پائی جاتی ہے۔ مسلم دنیا میں اتحاد کی ایک ہی صورت ہے کہ جس جس ملک میں جس فرقے کی اکثریت ہے اسے اپنے فرقے کے مطابق حکومت قائم کرنے کا حق تسلیم کرنا چاہیے۔ دوسرے ملکوں میں دہشت گردی اور جنگ کر کے یا جنگ کے ذریعے اپنے فرقے کی حکومت قائم کرنے کی پالیسیوں کو بدلنا ہو گا۔اسلام کے دشمن ایک دوسرے فرقے کو آپس میںلڑا کر اپنا اسلحہ فروخت کرتے ہیں اپنے دیرینا مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ مسلمان جب ایک تھے تو دشمنوں پر ان کا رعب طاری تھا اب فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اور اتحاد و اتفاق ناپید ہے تو دنیا میں دشمن ان کو مار رہا ہے۔ ہم قطر سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ عرب اور مسلم دنیا کے اجتماہی پالیسی سے اتفاق کرتے ہوئے اس مسئلہ کو حل کریں ۔ اللہ مسلمانوں کو اتحاد اتفاق سے رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان