تحریر : عماد ظفر احتساب کے لالی پاپ کو بارہا خریدنے والوں، آمریت کے تلوے چاٹنے والوں اور کرپشن کا شور مچا کر محض چہروں پر چہرے تبدیل کرنے والوں کو مبارک ہو کہ بالآخر جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم پانامہ پیپرز کیس میں پوچھ گچھ کیلئے ایک منتخب وزیرعظم کو طلب کرے گی یا اس سے ایک سوالنامہ دیکر جواب داخل کرنے کی ہدایت کرے گی. ایک منتخب وزیراعظم جسے کسی بھی مقدمے کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی ڈان اور سسیلین مافیا کا سرغنہ قرار دیا جا چکا ہے جب جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم کے روبرو پیش ہو گا تو شاید زندگی میں طاقت اور حیثیت میں پیچھے رہ جانے والے ایک بہت بڑے طبقے کو لاشعوری طور پر انا کی تسکین حاصل ہو گی. اس زخم خوردہ انا کی تسکین کیلئے چہرے تبدیل کرنے کا مہنگا بلکہ نوابی شوق رکھنے والی عوام کو تماش بین کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا. اس عوام کو تماشا دیکھنے کو ملنا چاہیئے بھلے ہی وہ تماشہ خود اس کے اپنے گھر کو جلا کر دکھایا جائے.
گاڈ فادر اور سیسیلین ڈان تو پہلے بھی عدلیہ کے سامنے بھی پیش ہوا، نااہل بھی قرار پایا اور ہائی جیکر بھی کہلوایا اور اب جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم کے روبرو بھی پیش ہو جائے گا لیکن وطن عزیز کی طاقت کی بساط کی “انڈرورلڈ” ہمیشہ کی طرح اس بار بھی پس پشت رہتے ہوئے طاقت کی اس بساط کو منطقی انجام تک پہنچانے کی پوزیشن میں دکھائی نہیں دیتی. یہ بساط نہ تو انڈر ورلڈ کا کوئی “سیاسی شوٹر ” اسے جتوا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی “کرائے کا سیاسی ڈکیت ” یہ بساط اس کے نام کر سکتا ہے. اس کھیل میں بہرحال انڈر ورلڈ کو جیتنے کیلئے سامنے سے آنا پڑے گا. وہ “سیاسی شوٹر” جو اس سارے کھیل میں پیادے کے طور پر استعمال ہوا ہے اس کا اپنا انجام طے پا چکا ہے اور جلد ہی وہ اپنے انجام سے دوچار ہوتا ہوا تاریخ کے کونے کھدروں میں ورق گم گشتہ کی مانند کھو جائے گا. آنے والی نسلیں شاید اصفر خان کی مانند اس “سیاسی شوٹر” کو عبرت کے نشان کے طور پر پڑھا کریں گی. لیکن وہ نوابی شوق رکھنے والی کلاس جسے نہ تو اعداد وشمار کی کچھ سمجھ ہے اور نہ ہی سیاسی و سلامتی پالیسیوں کی الف ب سے آگاہی ہے اس کی انا کی تسکین دراصل وہ واحد زریعہ اور طریقہ ہے جس کو ایکسپلایٹ کر کے “انڈرورلڈ” ہمیشہ اپنے مقاصد حاصل کرتی آئی ہے.
یہ نوابی شوق رکھنے والی کلاس وہی ہے جو انقلاب لانے کی خواہش میں تشریفوں پر ڈنڈے کھانے کے بعد دبک کر گھر میں بیٹھ جاتی ہے اور پھر ٹوئیٹر یا فیس بک کے ذریعے ماؤزے تنگ، چی گویرا اور والڑیر کے اقوال زریں شئیر کر کے سمجھتی ہے کہ بس اب ان ٹوئیٹس یا سٹیٹس اپ لوڈ کرنے کے بعد انقلاب آوے ہی آوے. اس طبقے کی سمجھ میں ایک سیدھا سیدھا نقطہ روز اول ہی سے نہیں آ رہا کہ وطن عزیز میں نہ تو آج تک کوئی انقلاب آیا اور نہ آ سکتا ہے. چہرے تبدیل کرنا اور اقتدار کے کھیل میں اپنا اپنا حصہ بٹورنا ہرگز بھی تبدیلی یا انقلاب نہیں ہوتا. یہ طبقہ جو ایک “سیاسی شوٹر” کا مرید بن کر پینجابی کی مثال “ساڈا کاں چٹا ہے” کی عملی مثال نظر آتا ہے دراصل اپنے “نوابی شوق” کی علت کے ہاتھوں مجبور ہو کر ہر دور میں کسی نہ کسی “سیاسی شوٹر” کے پیچھے لگ کر انڈر ورلڈ کے چارے کے طور پر استعمال ہوتا ہی آیا ہے. یہ طبقہ پہلے فاطمہ جناح کے خلاف تھا پھر یہ طبقہ شیخ مجیب کے خلاف نظر آیا اسـکے بعد اسـں طبقے نے اصغر خان کا دم بھرا .پھر بی بی اور نواز شریف کا دم بھرنے کے بعد یہ طبقہ مشرف کی گود میں جا بیٹھا.اس کے بعد سے اپنے نوابی شوق کی لت کا شکار ہو کر یہ طبقہ عمران خان کے پیچھے چل پڑا ہے.اب سوال یہ پیدا ہوتا پے کہ جب نوابی شوق کی علت رکھنے والا طبقہ ماضی کی مانند ایک بار پھر انقلاب انقلاب کا شور مچا رہا ہے اور انڈرورلڈ بھی اس طبقے کو ایک سیاسی شوٹر کے زریعے معاونت فراہم کر رہی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ نواز شریف کے اس بساط پر چت نہ کیا جا سکے گا؟ جس کا جواب بے حد سیدھا اور آسان ہے.
نواز شریف نے 1999میں اس وطن میں جمہوری طاقت کی اوقات خوب سے دیکھی بھی تھی اور سمجھی بھی تھی جب محض دو جیپوں اور چند سپاہیوں کے دم پر اس سے دو تہائی مینڈیٹ چھین کر اٹک قلعے میں بند کر دیا گیا تھا. نواز شریف نے اس دن سے لیکر آج تک اپنے کارڈز بین الاقوامی ایسٹیبلیشمنٹ کے دم پر کھیلے ہیں کیونکہ وہ جانتا ہے بین الاقوامی ایسٹیبلیشمنٹ سے بڑا مافیا کوئی بھی نہیں اورـاگر بین الاقوامی مافیا کی پشت پناہی حاصل ہو تو چھوٹے چھوٹے انڈرورلڈ کم سے کم پس پشت یا پردے میں رہ کر اس کی بساط کو نہیں لپیٹ سکتے. نواز شریف نے بھٹو کا انجام بھی دیکھا ہے اور اسے پتہ ہے کہ جیے بھٹو یا قدم بڑھاؤ نواز شریف کے نعرے مارنے والے نہ تو ٹینکوں کے آگے لیٹنے کی ہمت جٹا پاتے ہیں اور نہ ہی کال کوٹھڑیوں کی صعوبتیں برداشت کرنے پاتے ہیں. لہازا اس نے عقلمندی سے دنیا کے سب سے بڑے مافیا کے ہیڈکوارٹرز سے نہ صرف رابطہ برقرار رکھا بلکہ ان کی تائید بھی حاصل کر لی. اس لڑائی میں نواز شریف کو پیادوں کے بل پر شکست دینا ممکن ہوتا تو آج سے دو برس قبل یہ ہو گیا ہوتا. موجوہ حالات میں جب آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور ان کے ساتھی بھی جمہوری بیانیے کی پشت پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں ایسی صورتحال میں ماورائے آئین اقدام کا دور دور بھی نام و نشان نہیں.راحیل شریف کے دور کے برعکس موجودہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور ان کے ادارے کی کمٹمنٹ جمہوریت سے دو ٹوک اور پختہ ہے. یہی وجہ ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور افواج پاکستان کو آمریت پسند یا نوابی شوق کی وکٹ والے طبقوں کی جانب سے غیرضروری تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے.خیر سیاسی بساط پر اب مدعا صرف اور صرف یہ ہے کہ نواز شریف کو اگلے انتخابات کسی بھی طور پر جیتنے سے روکا جائے اور پانامہ کا سارا ہنگامہ اسی ایک مدعےکے گرد گھومتا ہے.
اب چہرے تبدیل کرنے کا نوابی شوق رکھنے والوں کو کون یہ سیدھی سی منطق سمجھا سکتا ہے کہ نادانوں نواز شریف کے موجودہ دور حکومت میں سے کوئی ایک بھی کرپشن کا سکینڈل یا الزام ایسا نہ تھا جسے بنیاد بنا کر اسے گھر بھیجا جاتا یا پھر اس کو اگلے انتخابات جیتنے سے روکا جاتا. پچیس برس پہلے کی فائل کھول کر اور نوابی شوق والوں کی علت کو کیش کر کے اس گڑے مردے کو زندہ کر کے جنہوں نے یہ بساط سجائی ہے نہ تو وہ نوابی شوق والوں کو اس میں سے کوئی حصہ دیں گے اور نہ ہی کسی سیاسی شوٹر کو مزید مصنوعی تنفس کے سہارے زندہ رکھا جائے گا.شوٹر سے کام لینے کے بعد اس کی موت انڈر ورلڈ کی دنیا کا بنیادی اصول ہوتا ہے لہزا اس بساط میں بھی سیاسی شوٹر عمران خان کی سیاسی موت یقینی ہے. نوابی شوق رکھنے والے اگر اپنی علت کا علاج کروانے پاتے تو شاید وطن عزیز میں جمہوریت نہ صرف مضبوط ہو جاتی بلکہ اس کے ثمرات پسے ہوئے طبقے کو بھی حاصل ہو جاتے. لیکن کم بخت یہ علت ایسی بری چیز ہے کہ اشتہا انگیزی کے ہاتھوں مجبور کروا کر چہرے تبدیل کرنے کے عمل میں شریک کروا ہی دیتی ہے.امید غالب ہے کہ نواز شریف اور دیگر جمہوری قووتیں اس بحران سے نبٹنے کے بعد ہمارے وطن کے اس طبقے جو کہ چہرے تبدیل کرنے کا نوابی شوق رکھتا ہے اس طبقے کی علت کا علاج کرنے کیلئے ہر ممکن طور پر ٹھوس اور جامع کوششیں کریں گے تا کہ اس علت کے ہاتھوں مجبور ہو کر بار بار اقتدار کی جنگ میں بطور چارہ استعمال ہونے والا یہ طبقہ نہ صرف اس علت کے مرض سے جان چھڑوا سکے بلکہ ایک متوازن اور خوش و خرم زندگی بھی گزار سکے.