اسلام آباد (جیوڈیسک) قزاقستان کے دارالحکومت آستانہ میں ’شنگھائی تعاون تنظیم‘ کے سربراہ اجلاس کے موقعے پر پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف اور افغانستان کے صدر اشرف غنی کے درمیان ملاقات ہوئی ہے۔
اجلاس کے دوران وزیر اعظم نواز شریف کی اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی سے ایک مختصر غیر رسمی رابطے میں جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ہونے والی ملاقات کے بارے میں تاحال پاکستان کی طرف سے باضابطہ طور پر تو کچھ نہیں کہا گیا؛ البتہ، صدر اشرف غنی سے وزیر اعظم نواز شریف کی ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے، بتایا گیا ہے کہ اس میں پاکستان کی جانب سے مشیر خارجہ سرتاج عزیز بھی شریک تھے۔
اطلاعات کے مطابق، وزیر اعظم نواز شریف اور صدر اشرف غنی کے درمیان ملاقات میں خطے میں سلامتی کی صورت حال، خاص طور پر دہشت گردی سے جڑے معاملات اور پاک افغان سرحد پر پاکستان کی جانب سے باڑ لگائے جانے کے معاملات زیر غور آئے۔
واضح رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات تناؤ کا شکار ہیں اور گزشتہ ہفتے کابل میں ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد افغان انٹیلی جنس ایجنسی (این ڈی ایس) نے اس کا الزام افغان طالبان کے ایک دھڑے ’حقانی نیٹ ورک‘ پر عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستانی فوج کے انٹیلی جنس ادارے ’آئی ایس آئی‘ نے اس حملے کی منصوبہ بندی کی۔
اس بم حملے میں 150 افراد ہلاک اور لگ بھگ 400 زخمی ہوگئے تھے۔
پاکستان کی طرف سے کابل میں بم حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے افغان حکومت و عوام سے یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔ لیکن، ساتھ ہی افغانستان کے الزامات کو ’’بے بنیاد‘‘ قرار دیتے ہوئے سختی سے مسترد بھی کیا گیا۔
دوطرفہ تعلقات میں کشیدگی کے تناظر میں جمعے کو پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اور صدر اشرف غنی سے ملاقات کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اعتماد سازی اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہر سطح پر رابطوں کو بڑھایا جائے۔
دریں اثنا، اطلاعات مطابق وزیر اعظم نواز شریف کی اپنے بھارتی ہم منصب سے ملاقات جمعرات کی شام قزاقستان کے صدر نور سلطان نذر بائیوف کی طرف سے دیئے گئے اعشائیے کے موقع پر ہوئی۔
شائع شدہ اطلاعات کے مطابق، ایک دوسرے کی خیریت سے متعلق جملوں کے تبادلے کے علاوہ بھارتی وزیر اعظم نے نواز شریف کی والدہ کی خیریت بھی دریافت کی۔
لیکن، عشایئے کے موقع پر دونوں رہنما الگ الگ میز پر بیٹھے۔
دسمبر 2015 کے بعد دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کے درمیان یہ پہلا براہ راست رابطہ تھا۔ 25 دسمبر 2015 کو کابل کے دورے سے واپسی پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے لاہور میں کچھ دیر قیام کیا اور پاکستانی ہم منصب سے اُن کی رہائشگاہ پر ملاقات کی۔
واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں اور خاص طور پر کشمیر میں ’لائن آف کنٹرول‘ پر آئے روز دونوں ممالک کی فوجوں کے درمیان فائرنگ و گولہ باری کے تبادلے کے واقعات ہوتے آ رہے ہیں جس سے دونوں جانب جانی نقصان ہوا ہے۔
رواں سال اپریل میں بھارت کی ایک معروف کاروباری شخصیت سجن جندل نے نجی حیثیت میں پاکستان کا دورہ کیا اور وزیر اعظم نواز شریف سے اسلام آباد کے قریب سیاحتی مقام مری میں ملاقات کی۔
اس ملاقات کو دونوں ملکوں کے درمیان غیر رسمی سفارت کاری کے طور پر بیان کرتے ہوئے یہ خبریں بھی سامنے آئیں کہ اس ملاقات کا مقصد شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کے موقع پر نواز شریف اور نریندر مودی کے درمیان ملاقات کی راہ ہموار کرنا تھا۔
لیکن، حکومت میں شامل عہدیداروں نے ان اطلاعات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ سجن جندل، وزیر اعظم نواز شریف کے دوست ہیں اور اس ملاقات کا دوطرفہ تعلقات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم نواز شریف کی روس کے صدر ولادیمر پوٹن اور چین کے صدر شی جنپنگ سے بھی ملاقات ہوئی تھی۔