تحریر : انجینئر افتخار چودھری وہ صبح سویرے گھر سے نکلا ایک چھوٹی موٹی نوکری بھی کرتا تھا اور ایک اخبار کا بیوروچیف بھی تھا۔ظالموں نے تاک کے مارا اور وہ سیدھا زمین پر آ رہا۔اللہ کی قدرت اس کی تصویر دیکھی ایسا لگ رہا تھا کہ شائد وہ نماز مکمل کر رہا تھا۔یہ تھا میری جنم بھومی ہری پور اور لورہ چوک کا رہائیشی بخشیش علی عباسی جسے گزشتہ روز نامعلوم افراد نے جنت مکانی کر دیا۔اس کا جنازہ بڑا جنازہ تھا اس کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا ماں اور بچوں کی تصویر بتا رہی تھی کہ کارکن صحافی کس حال میں رہتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان افغانستان سے بھی خطرناک ملک ہے جہاں صحافی موت کے منہ میں بیٹھ کر اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔شنید ہے کہ ایک میرے دوست نے پچاس ہزار روپے مدد کی ہے اور ایک نے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری لی ہے۔بہت خوب اللہ ان کی یہ نیکی قبول کرے۔پاکستان کے صحافیوں کو عام حالات میں ایسے مہربان نہیں ملتے۔عموما صحافیوں کی حالت یہ ہے کہ وہ لوگوں کے محتاج ہو کر جیتے ہیں۔سیاست دانوں کے محتاج پیروں اور منشیات فروشوں کے محتاج۔خبر لگانے کے بھی پیسے اور خبر رکوانے کا بھی معاوضہ۔ایسا کیوں ہے؟میں نے جدہ کے ایک میگزین کی نمائیندگی کی شہر کی ڈائیری لکھا کرتا تھا۔
مہینے کے آخر میں ایک کال آتی تھی کہ آئیں آ کر چیک لے جائیں ایک یا دوصفحے کی تحریر اور مہینے کے پندرہ سے بیس ہزار روپے مل جایا کرتے تھے حالانکہ میں ایک کمپنی میں اچھے مشاہرے پر ملازم تھا لیکن اخبارات وہاں کام کا معاوضہ دیتے ہیں۔ادھر عامل صحافی کو کہا جاتا ہے کہ آپ وی کمائو تئے سانوں وی کھوائو۔بخشیش کو مارنے والوں میں اخباری مالکان بھی ہیں ایسے ہزاروں بخشیش ایک کارڈ لے کر در بدر مرنے کی کھوج میں لگے رہتے ہیں۔میں نے اپنے تئیں کوشش کی کہ میری پریس کلب کے ذمہ داران سے بات ہو سکے میری ایک ایک بڑے پیارے نوجوان صحافی دوست سے بھی بات ہوئی۔میں نے بخشیش کے بارے میں دمام میں بھانجے سے بھی معلومات لیں ایک اور بھانجے سے بھی بات ہوئی جو عوامی نمائیندہ ہے۔سب نے یہی دکھڑا بتایا کہ گزشتہ کئی دنوں سے اسے فیس بک کی جعلی اکائونٹس سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔میں نے بخشیش کی آئی ڈی بھی دیکھی میں نے اسے سر تا پا صحافی پایا۔وہ پیپلز پارٹی نون لیگ اور پی ٹی آئی اور انتظامیہ کی خبریں تواتر سے لگا رہا تھا اس کے انداز سے بھی پتا چلتا تھا کہ وہ رپورٹنگ کر رہا ہے۔مجھے عزیز نے بتایا کہ گزشتہ دنوں اس کی جعلی اکائونٹ ہولڈر سے کافی ترش انداز میں گفتگو بھی رہی۔
یہ فیس بک جس نے بنائی اسے نہیں علم تھا کہ یہ چاقو پیٹ میں گھومپنے کے کام آئے گا۔معلوماتی تبادلے سے زیادہ یہاں لوگ ایک دوسرے کو دھمکیاں اور گالیاں دینے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔پہلے بازاروں میں بیٹھ کر لڑائی جھگڑے ہوتے تھے اب کمروں کے کونوں میں سر جھکا کر آسٹریلیا امریکہ سعودی عرب اور دور دراز کے لوگوں کو مغلظات بکی جاتی ہیں۔لورہ چوک اس کے گردونواح میں آئے روز قتل ہوتے ہیں۔پتہ نہیں عدم برداشت کی حکمرانی اس علاقے میں کیوں ہے ؟آپ ہریپور کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں یہاں دہشت گرد کلاشنکوف کے علمبردار ہی عزت پاتے ہیں کسی شریف آدمی کا جینا یہاں دوبھر ہے۔
آپ بستی بلند خان کی تاریخ دیکھیں کرہکی کا مطالعہ کریں تربیلا ٹائون شپ اور اس پورے علاقے پر نظر دوڑائیں یہاں بندوق راج کرتی ہے۔میں نے بچپن میں گرمیوں کی چھٹیاں آبائی گائوںمیں گزاری ہیں یہاں چولہوں پر قاتلوں کی کہانیاں سنائی جاتی تھیں مفروروں کے قصے بیان کئے جاتے تھے۔کتنے عظیم لوگ اس گندی اقدار کی بھینٹ چڑھ گئے۔میرا خدا جانتا ہے کہ وہ لوگ جو بندوق اور گولی سے پیار کرتے ہیں ان کے ہاتھوں قتل کئے گئے جنازے پڑھنے پڑتے ہیں اور کبھی ان کے اپنے پڑھے۔کیا جہالت ہمارا مقدر ہے؟کیا ہم جنگلی ہیں؟جن ہاتھوں میں کتابیں ہونی چاہئیں ان میں کلاشنکوف دیکھ کر دل دکھی ہوتا ہے۔کاش ہم سمجھ جائیں کہ کتاب سے بڑا کوئی ہتھیار نہیں۔بخشیش تو مر گیا ہے ۔مجھے پوری امید ہے کہ اس کے قاتل کے پی کے پولیس زمین کے نیچے سے بھی نکال لے گی۔لیکن ۔۔۔۔لیکن کیا ان یتم بچوں کو باپ ملے گا۔وہ معصوم بیٹا باپ کی محبت کو دیکھ پائے گا۔اللہ ان کے بچوں کی سر پرستی کرنے والوں کو سلامت رکھے لیکن وہ ایک باپ کی چھائوں کبھی نہیں دے پائیں گے۔کبھی نہیں۔اخبارات کے مالکان عامل صحافیوں کو کیا دیں گے۔کیا آپ جانتے ہیں کہ صحافی کے کیمرے کی انشورنس ہوتی ہے اس کی اپنی نہیں۔میں صحافیوں کی تنظیمیوں کے سرکردہ افراد سے مطالبہ کروں گا کہ خدارا پلاٹوں کے پیچھے نہ بھاگیں ان صحافیوں کے بچوں کی انشورنس کرائیں۔مالکان سے بات منوائیں کہ وہ عملے کی فلاح و بہبود کی طرف توجہ دیں۔ہو سکتا ہے بخشیش اور ان جیسے ہزاروں مستند صحافی نہ ہوں۔
کیا یہ ممکن ہے کہ مالکان انہیں اپنے خرچے پر ٹرینننگ کورسز کرائیں۔میں ہریپور جرنلسٹس سوسائٹی سے دلی تعزیت کرتا ہوں ۔میںانشاء اللہ جلد حاضری بھی دوں گا۔اس دوران میں یہ گزارش کروں گا کہ خدارا ہری پور کو بخشو اس شہر کی عزت کریں جس نے فیلڈ مارشل دیا جس نے ایئر چیف دیا شاعر دیا تو قتیل شفائی خدا را غنڈوں کو اس شہر کا چہرہ نہ بنائیں۔پتہ نہیںہم کب سدھریں گے اور یہ بھی علم نہیں کہ سدھرنے کا ارادہ نھی ہے یا نہیں۔بخشیش تو اپنی نماز مکمل کرنے سجدہ ریز ہو گیا اور خون سے وضو کر نماز عشق ادا کر گیا مگر اپنے پیچھے سوال چھوڑ گیا کہ یہ شہر یہ علاقہ شرفاء کے رہنے کے قابل ہے کیا ہم اپنے بچے اس ماحول میں پروان چڑھا سکتے ہیں۔لیڈران کا علم ہے اسی لئے وہ اپنے بچوں کو اسلام آباد مری میں پڑھاتے ہیں سوال بخشیش جیسے کارکنوں کا ہے۔مجھے پتہ چلا ہے وہ میرے دوست سعید عباسی کا عزیز تھا۔میں سیاست دان ضرور ہوں مگر آج میرے قلم قبیلے کے فرد کی شہادت ہوئی ہے ڈی پی اور ندیم بخاری کی باتوں میں دم ہے کہ وہ اس قتل کو ہائی پروفائل سمجھتے ہیں اور مجھے یہ بھی علم ہے کہ ہری پور میں کوئی ماڈل ٹائون نہیں اللہ نہ کرے کہ گود میں بیٹھا بچہ کبھی وکیلوں کا بھیس بدل کر باپ کے قاتلوں کو پہنچے بخاری صاحب آپ اس کو چیلینج سمجھیں۔میں سارے ہریپور سے بھی اظہار تعزیت کرتا ہوں اور جرنلسٹس کمیونٹی سے بھی ۔یقینا وہ مرتے وقت کہہ رہا ہو گا وطن کی مٹی عظیم ہے تو، عظیم تر ہم بنا رہے ہیں گواہ رہنا۔(میرا تعلق نلہ یو سی جبری سے ہے۔پی ٹی آئی کا مرکزی ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات اور باعث افتخار کے نام سے قومی جرائد میں لکھتا ہوں)