اسلام آباد (جیوڈیسک) وزیر اعظم نواز شریف نے جے آئی ٹی کو جوابات دیتے ہوئے بتایا کہ بیرون ملک کاروبار یا جائیداد سے تعلق نہیں ہے، 1985سے خاندانی کارو بار سے الگ ہوگیا تھا۔ جے آئی ٹی میں زیادہ تر سوالات ٹیم کے سربراہ واجد ضیا نے پوچھے۔
دی نیوز کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم نے مبینہ طور پر جے آئی ٹی سے کہا کہ ایسے سوالات ملکی قانون کے تحت بھی نہیں پوچھے جاسکتے۔ انہوں نے کہاکہ اگر ٹیم کے پاس اُن کے دورِحکمرانی کے دوران کرپشن، کک بیکس اور کمیشن وغیرہ کے حوالے سے سوالات ہیں تو وہ اُن کا جواب دے سکتے ہیں ۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو مختلف کمرے میں بٹھایا گیا، ڈیڑھ گھنٹے تک سوالات کیے گئے۔ اس موقع پر وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ مجھ سے کرپشن کے متعلق سوالات پوچھیں ۔
دی نیوز کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو بتایا کہ خلیجی ممالک کے کاروبار ، لندن کی جائیدادوں یا آف شور کمپنیوں سے ان کا کوئی مفاد وابستہ نہیں نہ ہی وہ ان کے مالک ہیں، وہ اس طرح کے کاروبار اور پراپرٹیز کے حصول کے لیے کسی بھی طرح کے لین دین میں ملوث نہیں ہیں۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے جے آئی ٹی کو بتایا ہے کہ 1985ء سے وہ ان میں سے کسی بھی کمپنی کے ڈائریکٹر نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے خود کو مکمل طور پر سیاست کے لیے وقف کر دیا تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم اور تفتیش کاروں کے درمیان شائستہ اور بڑے احترام کے ساتھ بات چیت ہوئی اور پیشہ ورانہ رویہ اختیار کیا گیا۔ زیادہ تر سوالات جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا نے پوچھے۔
وزیراعظم کو تفتیش کے لیے اس کمرے میں نہیں بٹھایا گیا جہاں دیگر گواہان کو بٹھایا گیا تھا اور جہاں سے حسین نواز کی تصویر لیک ہوئی تھی۔
وزیراعظم نے اپنا بیان پڑھا جس کے بعد ان سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک سوالات کیے گئے جو زیادہ تر شریف خاندان کے دبئی کے کاروبار سے متعلق تھے۔
وزیراعظم نے مبینہ طور پر جے آئی ٹی کو بتایا کہ وہ خاندان کے اُس کاروبار پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں جو 44-45سال قبل اُن کے زمانۂ طالب علمی کے دوران قائم کیا گیا تھا۔
وزیراعظم نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ خاندان کے دہائیوں قبل شروع کیے گئے کاروبار پر توجہ مرکوز کرکے وہ اپنا اور قوم کا وقت برباد کر رہے ہیں۔ انہوں نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ ایسے سوالات ملکی قانون کے تحت بھی نہیں پوچھے جا سکتے۔
انھوں نے کہاکہ اگر ٹیم کے پاس اُن کے دورِ حکمرانی کے دوران کرپشن ، کک بیکس اور کمیشن وغیرہ کے حوالے سے سوالات ہیں تو وہ اُن کا جواب دے سکتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے اپنا تحریری بیان پڑھ کر سنایا کہ ان کے اثاثوں کی مکمل عکاسی انکم ٹیکس گوشواروں اور اثاثوں کے گوشواروں میں موجود ہے۔ وہ اپنے والد کی قائم کردہ ایک یا ایک سے زیادہ کمپنیوں کے شیئر ہولڈر یا ڈائریکٹر تھے لیکن گزشتہ تین دہائیوں سے وہ ان میں سے کسی بھی کمپنی کے ڈائریکٹر نہیں ہیں۔
وزیراعظم نے جے آئی ٹی کو اپنی ٹیکس دستاویزات دیں اور اصرار کیا کہ ٹیکس ریٹرنز میں جو چیزیں بتائی گئی ہیں اُس سے زیادہ اُن کے پاس کچھ نہیں۔
وزیر اعظم نے بتایا کہ ان کے پاس گلف اسٹیل ملز، الاعزازیہ اسٹیل، فلیگ شپ انوسٹمنٹ لمیٹڈ، ہل میٹلز یا پارک لین، لندن فلیٹس یا کسی دوری غیر ملکی کمپنی بشمول نیلسن اور نیسکول کے ساتھ کوئی مفاد وابستہ نہیں ہے اور نہ وہ ان کے مالک ہیں۔