تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری ڈرون حملوں کے بارے میں پوری پاکستانی قوم میں اضطراب پایا جاتا ہے ہمارے ہی کمانڈو جنرل نے ان کی اجازت دی تھی جو ایک فون کال پر امریکی صدر کے آگے چت لیٹ گئے تھے۔کسی ساتھی حتیٰ کہ کور کمانڈرزاور دیگر جنرل ساتھیوں تک سے مشورہ بھی کرناضروری نہ سمجھااور امریکی حیران رہ گئے کہ ہم نے جو مطالبے اور بھی کئے تھے ان میں سے کئی پر پاکستانی حکمران مشورہ کرنے کے لیے وقت مانگ سکتا تھامگر اس نے تو سبھی فوجی مطالبات من و عن فوراً تسلیم کر لیے بعد ازاں ایمل کانسی تک کو بھی ان کے حکم پر امریکہ بھیجا گیا پاکستانیوں کی بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو عقوبت خانوں میں بند پڑے کئی سال گزر چکے ہیں۔کسی حکمران نے امریکنوں سے کبھی بھی ملکی لیول پراس کی رہائی کا مطالبہ تک نہ کیا۔بزدلی حکمرانوں اور ہمارے نام نہاد سیاسی راہنما ئوں کی سرشت میں گھس چکی ہے۔
عمرانی بڑھکیں کہ ڈرون حملے نہیں کرنے دوں گا کبھی کی ختم ہوچکیںان سے مزید توقع باندھنا بھی عبث ہو گا کہ اب تو پی پی پی کے دھتکارے ہوئے سبھی کابسیرا یہیں ہو چکا ہے۔عمران خان اور جہانگیر ترین کے علاوہ(کہ وہ مشرف کے وزیر تھے)سبھی وہی جاگیردار صنعتکار اور نودولتیے سرمایہ دار”انصاف “کرنے کے لیے اندر گھس گئے ہیں جنہوں نے بھٹو کی پھانسی پر مذموم کردار ادا کیا تھا۔مشکل آن پڑی تو عمران بیچارے کو بھی دھکا دے کر خود پیچھے مڑ جائیں گے۔اور کہیں اور بسیرا کرلیں گے۔ان کی آمد ورکر نوجوانوں کی شامت ہے۔عمران خان نے ڈرون حملوں کے خلاف عرصہ دراز تک سٹینڈ لیے رکھا مگر اب سب کچھ عنقا ہو چکا۔ہمارے محترم آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے پشاور میں خطاب کرتے ہوئے درست کہا ہے کہ ڈرون حملے مسئلہ کا حل نہ ہیںڈرون حملے اور اس جیسے دیگر اقدامات دہشت گردی کے خلاف جنگ میں الٹا نقصان دہ ہیں۔ہماری اپنی افواج خود موثر کاروائیاں کر رہی ہیںاور دہشت گردوں کو کچلنے کا کام احسن طریق پر ہورہا ہے ڈرون حملوں سے ٹارگٹڈ دہشت گرد بھی ہلاک نہیں ہوتے بلکہ معصوم سویلین افراد بھی بیسیوں کی تعداد میں شہید ہوجاتے ہیں۔
چند سال قبل فجر کی نماز کے وقت ڈرون حملے سے کھلی فضا میں قران مجید پڑھتے ہوئے تین درجن سے زائد ننھے معصوم بچے اور بچیاں ہلاک کر ڈالی گئی تھیں۔ڈرون حملے سے سویلین افراد کی شہادتوں کا ذکر کرنابھی مناسب خیال نہیں کیا جاتا تاکہ عوامی رد عمل نہ ہو۔ایٹمی پاکستان ہوتے ہوئے ہم پر ڈرون حملے ہو جانا ہمارے منہ پر ایک تمانچہ کی حیثیت رکھتا ہے جو ہماری غیرت اورملی تقاضوں کے بھی خلاف ہے۔ڈرون حملے ہمارے قرب و جوار سے ہی عمل پذیر ہوتے ہیں کہ ہمارے کمانڈو کی اجازت دی ہوئی ہے اب ہم دیواروں سے ٹکر ماریں؟ یا کیا کریں؟ کہ وہ تو ریمنڈ ڈیوس کی طرح اڑنچھو ہو کر بیماریوں کا بہانہ کرکے باہر جا بیٹھا ہے یہ سب اسی کا کیا دھرا ہے کہ ہم ڈرون حملے سے ایک آدھ دہشت گرد کی ہلاکت سے ساتھ کئی سویلین شہید کروانے پر مجبور محض ہیں۔اور دہشت گرد بھی کوئی انوکھی قسم کے ہیں کہ جتنے ہلاک کیے جاتے ہیںاس سے کئی گنا زیادہ تیار ہوجاتے ہیں۔پاکستان میں موجود دہشت گردوں سے تو ہم بخوبی نمٹ رہے ہیں ہمارے ساتھ انٹیلی جنس شئیرنگ امریکن اور افغانی احسن طریقے سے کریں تو یہ قضیہ پاک فو ج جلد حل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے افغانستان کے اندر بات اور ہے کہ وہاں طالبان کی پر امن طور پر چلنے والی حکومت پر یکدم بمباریاں کرکے اسے ختم کر ڈالا گیااور امریکنوں نے اپنے ٹوڈی حکمران وہاں بٹھادیے جن کی حفاظت کے لیے اپنی اور دیگر بیرونی ممالک کی افواج تعینات ہیںآدھے سے زیادہ ملک پر ا ب بھی افغانی طالبان کا قبضہ ہے بیرونی سامراجی افواج حصاروں میںاس قدر دُبکی ہوئی بیٹھی ہیں کہ تقریباً سبھی فوجی پاگل پن کی حدوں کو چھورہے ہیں کہ وہ اپنے سروں پر ہر وقت موت منڈ لاتی محسوس کرتے ہیںویسے بھی کسی دوسرے ملک میں قبضہ کرکے بیٹھ جانا کوئی خالہ جی کا واڑا نہیں ہوتااور یہ تو ٹھہرے افغانی جنہوں نے آج تک پوری تاریخ میں کسی بیرونی حملہ آور کو گھسنے نہیں دیا۔
قبضہ تو وہ کیا کرنے دیں گے؟ افغان باقی کوہسار باقی کی طرح افغانی پہاڑوں کی طرح سخت اور منتقم مزاج ہیں۔تمام بیرونی حملے آوروں کو یا تو مکمل بھگا نہ لیں یا سب کو ختم نہ کر ڈالیں ان کے پاس کبھی دوسرا آپشن نہیں رہا۔اس لیے پاکستانیوں ،بھارتیوں اور امریکنوں کو بھی نظر ثانی کرکے جمہوری تقاضوں کے مطابق عام انتخابات کاا علان کرنا چاہیے تاکہ جس کی اکثریت ہو وہ وہاں حکمران بن جائے وگرنہ آج تک کی نسبت کے مطابق ایک افغانی فرداور چار بیرونی فوجی ہلاک ہوتے رہیں گے اور یہ قتل و غارت گری کبھی ختم نہ ہوسکے گی۔
پاکستان امریکہ و اس کی اتحادی افواج کے پرامن طریقے سے واپس چلے جانے میں ممد و معاون ہوسکتا ہے مگر امریکی مودی کو یہاں کا علاقائی تھانیدار بنانے پر تلے ہو ئے ہیں اسلئے سخت مشکلات پیش آرہی ہیں۔امریکہ نے افواج کو یہاں سے نکالنا ہی ہے تو باعزت طریقہ پاکستانی پلوں کے نیچے سے پانی گزار کر ہی حاصل ہو سکتا ہے۔