تحریر: حاجرہ عمران خان آج کا عنوان “پھلوں کا با ئیکاٹ درست یا غلط “انتہائی حساس اور نازک ہونے کے ساتھ ساتھ نیا بھی ہے۔نیا اس لیے کہ اس طرح کی بحث تیسری دنیا کے مسائل میں الجھے لوگوں کے ملک میں خال خال ہی دکھائی دیتی ہے۔ ایسی مہم کا چلنا اور پھر اس پر سیر حاصل تبصرے اور آرٹیکلز لکھنے کی دعوت دینا ، معاشرے میں شعور اجاگر کرنا اور معاشرے کو درست راہ پر گامزن کرنے کے مترادف ہے۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے اپنے ارد گرد ہمیشہ یہ شور زورو شور سے سنا ہے کہ” اف بہت مہنگا ئی ہے۔”یہ بات سچ ہے کہ ہمارے ہاں ہمیشہ مہنگائی کا راج رہا ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ اس کے خلاف دبی دبی آوازوں کے سوا کبھی بھی کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔اس کی وجہ شاید ہم عوام خود ہیں۔
کیا یہ سچ نہیں کہ پاکستان کی عوام میں جو امیر ہے وہ امیر تر اور جو غریب ہے وہ غریب تر ہے۔ جب کسی قوم پر عروج آتا ہے اس قوم کی ایلیٹ کلاس کا اس میں بہت بڑا کردار ہوتا ہے لیکن جس قوم کا غریب آدمی مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہواور صاحب حیثیت طبقہ چین کی بانسری بجا رہا ہو وہاں طبقاتی فرق زمین اور آسمان جتنا وسیع ہوجاتا ہے۔ایسا معاشرہ تنزلی کی سیڑھیاں اترتاہوا اپنے انحطاط کی طرف گرتا چلا جاتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ اس کی بد ترین مثال ہے۔یہاں غریب کے ساتھ کیا ہو رہا ہے یا وہ زندگی کس مشکل سے گزار رہا ہے اس بات سے اور اس کے مسائل سے صاحب حیثیت کو کوئی لینا دینا نہیں ایسے میں پھل مہنگا ہو یا سبزی یا دوسری ضروریاتِ زندگی۔۔۔۔یہ صرف غریب آدمی کا دردِ سر ہے۔اس حقیقت کو تسلیم کر کے اس ملک کے عام آدمی کو اپنے بارے میں خود ہی سوچنا ہو گا۔اپنے مسائل کا حل خود تلاش کرنا ہو گا۔ امیر آدمی کی جیب بھی بھری ہے اور فرج بھی۔اس لیے اسے عام آدمی کے مسائل سے کوئی تعلق واسطہ نہیں۔مہنگائی اس ملک کے عام آدمی کا مسئلہ ہے اور اسے یہ مسئلہ خود ہی حل کرنا ہے۔کوئی آسمان سے اتر کر ان مسائل کو حل نہیں کرے گا رمضان کا مہینہ شروع ہوتے ہی مہنگائی کا طوفانِ بدتمیزی اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ایسے میں سب چیزوں کے ساتھ ساتھ پھلوں کی قیمت بھی آسمان چھونے لگتی ہے۔ وہ مزدور اور کسان جو چاہتا ہے کہ رمضان کا روزہ وہ اور اس کا بچہ پھل کھا کر افطار کرے وہ اس کی جیب اور سوچ سے دور کر دیا جاتا ہے۔
ایسے میں وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ “ذرا یہ رمضان گزر جائیں تو پھر ہی میں اس قابل ہو سکوں گا کہ گھر میں پھل لا سکوں” خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو آپ اپنی حالت کے بد لنے کا خیال ایسا کیا عملی قدم ہو کہ سسٹم کا یہ عفریت غریب آدمی کے ہاتھ آجائے۔مہنگائی کا یہ جن کسی بوتل میں بند کیا جا سکے۔ کشتیاں جل چکی ہیں ، حکومت بک چکی ہے بلکہ آئی _ایم_ ایف کے بینکوں میں گروی پڑی ہے تو ایسے میں عام غریب ، مزدور آدمی کیا کرے۔۔۔۔انتظار کرے یا بائیکاٹ کرے۔ اس سے پہلے ہمیشہ انتظار ہی کرتا رہا ہے۔۔۔۔حال ہی میں مہم چلی ہے کہ ‘ با ئیکاٹ کرے ‘مگر اس میں بھی سو طرح کے خدشات لاحق ہیں۔ پھل فروش بھی تو غریب انسان ہے۔۔۔ہمیں کیا حق پہنچتا ہے کہ ہم کسی غریب کا رزق چھین لیں ، یہ وہ احساسِ جرم ہے جس کا ہم شکار ہیں ، وہ چند فیصد لوگ جو اس حق میں ہیں کہ بائیکاٹ کیا جائے اور مہنگائی کے اس آسمان چھوتے گراف کو نیچے لایا جا ئے وہ اس طرح کے دلائل سن کر خا مو ش ہو رہتے ہیں۔کسی بھی شخص کے لیے یہ فیصلہ کرنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے کہ کیا کرے کیا نہ کرے اور اگر کرے بھی تو کیا کرے۔سوشل میڈیا پر ایک بحث سی چھڑ گئی ہے۔ راقم بھی اس وقت شدید کشمکش کا شکار ہے کہ آخر یہ فیصلہ کس طرح ہو ؟۔۔۔۔۔انسان اشرف المخلوقات ہے اور ہر مسئلہ کا کوئی نہ کوئی حل نکال ہی لیتا ہے سو ایسے وقت میں جب فیصلہ نہ ہو پا رہا ہو تو تحقیق سے کام لیناچاہیے۔راقم نے بھی کچھ تحقیق کی اور کچھ نقائط کو ایک جگہ جمع کیا ہے۔جس سے شاید کسی اور کو فیصلہ کرنے میں آسانی میّسر آ سکے۔ سب سے پہلا فقرہ ایک پوسٹ پر پڑھا” ہم لینا چاہتے ہیں اس لیے نہیں لیں گے ” اس کے بعد مطالعہ کا دائرہ بڑ ھا دیا تاریخِ اسلام کیبہت بڑے خلیفہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہہ ہیں۔اسلامی ریاست کو دنیا کے تین تہائی حصّے تک پہنچانے والے ،جن کی فہم و فراست کی مثالیں آج تک دی جاتی ہیں۔جن کی رائے کو اللہ ربْ العزت بھی قرآن پاک کا حصّہ بنا ئے۔ فجر کی اذان میں جن کے منہ سے نکلے الفاظ کو شامل کیا جائے۔
ہمارے دوسرے خلیفہ کے دور خلافت کا واقعہ پیشِ خدمت ہے۔”ایک بار سیدنا عمر بن خطاب رض عمررضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں گوشت کی قیمت میں حد درجہ اضافہ ہوگیا۔ لوگ گوشت کی گرانی کی شکایت لے کر عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچے۔ عمررضی اللہ عنہ نے ان کی بات سننے کے بعد کہا: اگر اس کا بھاؤ چڑھ گیاہے تو کم کردو۔ لوگوں نے کہا: ہم تو ضرورت مند ہیں، گوشت ہمارے پاس کہاں ہے کہ ہم اس کی قیمت کم کردوں؟ عمر رضی اللہعنہ نے کہا کہ دراصل میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ اس کا استعمال کم کردو، کیونکہ جب اس کا استعمال کم ہوجائے گا تو اس کی قیمت بذاتِ خود کم ہوجائے گی۔ (ملاحظہ ہو: تاریخ دمشق6282، حلیة الاولیاء 823) اسلام کی ایک اور بہت بڑی شخصیت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، جن کی عقل و دانش اور اقوال کو آج چودہ سو سال گزر جانے کے بعد بھی لوگ دہراتے ہیں ،آپ? کے زمانے میں بھی لوگوں کو اسطرح کی صورتِ حال پیش آئی تو آپ? نے کیا تجویز پیش کی۔۔۔۔آئیے جائزہ لیتے ہیں۔ سیدنا علی بن ابی طالب عمررضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں مکے کے اندر کسی موقعے پر زبیب (کشمش) کی قیمت بڑھ گئی۔ لوگوں نے خط لکھ کر کوفے میں موجود علی بن ابی طالب عمررضی اللہ عنہ سے اس کا شکوہ کیا۔ تو انہوں نے یہ رائے تجویز فرمائی کہ تم لوگ کشمش کے بدلے کھجور استعمال کیا کرو کیونکہ جب ا?سا کروگے تو مانگ کی کمی سے کشمش کی قیمت گرجائے گی اور وہ سستی ہوجائے گی۔ اگر سستی نہ بھی ہوتو کھجور اس کا بہترین متبادل ہے۔(تاریخ ابن معین 168 التاریخ الکبیر للبخاری3523 اگر ہم اسلام کے اس روشن باب کی مثال لیں تو ہماری سمجھ میں یہ بات با آسانی آ جاتی ہے کہ اس مہم کے پیچھے سیدنا عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا علی ابن ابو طالب رضی اللہ تعالی عنہ کا ہاتھ ہے… واقعہ کچھ یوں ہے کہ جب سیدنا ابن الخطاب کے دور خلافت میں گوشت اور سیدنا علی بن ابی طالب کے دور میں کشمش کے نرخ بڑھ گئے تو عوام الناس نے مہنگائی کی شکایت کی تو ہماری دونوں سردار و امام ہستیوں نے کچھ دن ان اشیائکو نہ خریدنے کا مشورہ دیا تاکہ قیمتیں اپنی اصل سطح پر آ جائیں اور عوام سے یہ بھی نہیں کہا کہ کشمش فروشوں اور قصابوں کی اتنے دن اپنی جیب سے مدد کریں جتنے دن آپ نے متعلقہ اشیائ کی خریداری نہیں کرنی۔
غریب پھل فروشوں کی آڑ میں اس مہم کی مخالفت کرنے والے حضرات کو اپنی کم علمی کا اعتراف کرتے ہوئے خاموشی اختیار کر لینی چاہیے… مہم مخالف قوتوں کی جانب سے کیے گیے گمراہ کن پروپیگنڈے کا شکار ہو کر ہمارے کافی دوست اور عوام غریب پھل فروشوں کے حوالے سے احساس جرم کا شکار ہیں اور متذبذب ہیں کہ کس کا ساتھ دیں…مگر میرے لیے فیصلہ قدرے آسان ہو گیا ہے کچھ لوگوں نے اعتراض اٹھایا کہ غریب پھل فروش ہی اس با ئیکاٹ کا شکار کیوں بنیں اور بھی چیزیں مہنگی ہیں ان کے خلاف بھی بائیکاٹ ہونا چاہیے۔جب ایک مہم میں کامیابی ملتی ہے تو اسی طرح کی دوسری مہم جڑ پکڑتی ہے۔ لوگوں پر اس سلسلے کے یہ اثرات مرتب ہوئے ہیں کہ لوگ ایک کے بعد ایک آئٹم کے خلاف مہم چلانے کے بارے میں سوچنے لگے ہیں۔اس بارے میں شعور اجاگر ہو گا۔اس کی کچھ جھلکیاں پیشِ خدمت ہیں۔
اس سلسلے میں مختلف لوگوں نے اپنی آراء پیش کی ہیں۔مثال کے طور پر موبائل کمپنیوں کے بے جا اور ناجائز ٹیکسز کے خلاف بائکاٹ کیا جائے۔ پانچ روز تک موبائل کالز کا بائیکاٹ
کریں۔1 : صرف ایمر جنسی کال کریں۔2:کارڈ یا بیلنس نہ خریدیں۔3:کال میسج یا انٹر نیٹ پیکج نہ کریں۔ اس میسج کو ایک لاکھ بار شئیر کریں۔سوشل میڈیا کو مسائل کے حل کے لیے استعمال کریں۔
اس کے علاوہ کسی حضرت نے بیہودہ اور واہیات قسم کے اشتہارات کے خلاف با ئیکاٹ کا عندیہ دیا ہے۔ جیسا کہ آج کل ٹی وی میں ڈیٹول سوپ ک اشتہار چل رہا ہے۔۔۔جسے دیکھ کر انسان شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے اور ٹیلی وڑن کے سامنے بیٹھے ہوئے افراد ایک دوسرے سے نظریں چرانے لگتے ہیں۔
یہ معاملہ سرا سر ہماری روایات اور اخلاقی اقدار کا ہے۔ہمیں ٹی وی کے ہر ایسے ایڈ کا بائیکاٹ کرنا چاہئیے جو ہماری اقدار کے خلاف ہو۔تا کہ آئندہ کسی کمپنی کو اس طرح کا واہیات اشتہار بنانے کی جر ات نہ ہو
اس میسج کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں اور برائی کے خلاف اس جہاد می شامل ہو جائیں۔
Boycott Fruit in Pakistan
اس مہم سے عوام الناس میں ایسا شعور بیدار ہوا ہے کہ جس کا جوش کبھی ٹھنڈا نہیں پڑنا چاہیے۔یہاں ایک ایسی روایت کی بنیاد پڑ جائیگی جہاں غریب آدمی کی قسمت اس کے اپنے ہاتھ میں ہو گی اور وہ مہنگائی کی ناک میں نکیل ڈال سکے گا۔امیر تاجر اس کے بائیکاٹ اور ایکے کی طاقت سے ڈرنے لگے گا۔پھر ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم ہجوم نہیں قوم ہیں چلتے چلتے ایک آخری بات کہ رمضان کا بابرکت مہینہ ہے اگر آپ کے پاس پیسے ہیں ، آپ بائیکاٹ کا حصّہ ہیں اورآپ پھل نہیں خرید رہے تو آپ جنت میں پھل خرید لیں کسی غریب پھل فروش کی اپنی جیب سے مدد کر کے ، اس کی اللہ واسطے امداد کر کے۔۔اس طرح ہم دہرا ثواب کما سکتے ہیں۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔