تحریر : حفیظ خٹک آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کا لگنے والا تماشہ آخری مراحل میں داخل ہوچکا ہے۔ سخت سیکورٹی خالات کے باوجود ان دنوں برطانیہ میں متعدد واقعات رونما ہوئے جن کے اثرات پوری برطانوی قوم پر آن پڑے اور قوم نے اس صورتحال میں شعباجات زندگی کو رواں دواں رکھا۔ اپنے جذبات کی عکاسی قوم نے اپنے انداز میں کی، کھیل کے میدان میں آغاز مقابلہ سے قبل کچھ دیر کی خاموشی اختیار کی تو متاثرہ جہگوں پر مرحومین کی یاد میں اپنے مثبت جذبات کی ترجمانی کیلئے پھولوں رکھے ، آنسو بہائے اور پھر واپس اپنی عملی زندگی کی جانب گامزن ہوئے۔ یہاں یہ نقطہ بھی قابل توجہ ہے کہ اس نوعیت کے حالات و واقعات اگر کسی اور ملک میں رونما ہوئے ہوتے تو اس وقت جاری مقابلوں پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ۔ مہمان ٹیمیں کھیل کو ادھورے انداز میں ہی چھوڑ کر واپسی کا راستہ اختیار کرتیں اور نتیجہ اس میزبان ملک کیلئے منفی اثرات مرتب ہوتے۔
تاہم ان دنوں برطانیہ میں جاری آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی اپنے فائنل کی دہلیز پر ہے ۔ پاکستان اور بھارت جو کہ صر ف کرکٹ ہی میں نہیں ہر اک میدان میں روایتی حریف رہے ان میں اس ٹرافی کا فائنل ہونے جارہا ہے ۔ برطانیہ میں رونما ہونے والے حالات کا اثر برطانوی کھلاڑیوں پر ہوا جو اس بات سے عیاں ہے کہہ ان کی ٹیم اس ٹورنامنٹ کی بہترین ٹیم تھی اور انہوں نے اپنے تمام تر مقابلوں میں کامیابی حاصل تھی ، مبصرین کرکٹ سمیت شائقین کرکٹ بھی یہی سمجھ رہے تھے کہ اس بار ٹرافی انگلینڈ لے جائیگا لیکن ایسا نہ ہوسکا ، سیمی فائنل میں پاکستان کے خلاف واضح انداز میں ہار ،نے ان کے جذبات کی عکاسی کر دی۔
پاکستان کی کرکٹ ٹیم جو اس ٹورنامنٹ میں کسی بھی طرح سے فیورٹ نہیں تھی اور بھارت کے خلاف میچ میں بڑی شکست سے دوچار بھی ہوچکی تھی لیکن اس کے باوجود آسی سی ٹرافی کے فائنل میں پہنچ گئی ۔ شکست کے بعد ملنے والی فتوخات کے نتیجے میں پوری پاکستانی قوم ہی نہیں پوری کشمیری قوم بھی اور ان کے ساتھ بھارت کے اند ر مسلمان بھی پاکستانی ٹیم کی کارکدگی پر مسرور تھی اور اب جب کہ فائنل ہونے جاررہا ہے تو دونوں ٹیموں کے سابقین کھلاڑیوں سمیت پوری قوم کی نظریں اس فائنل پر لگی ہوئی ہیں ۔ بھارتی کھلاڑی سہواگ کے ٹوئٹس ہوں یا پاکستانی شاہد آفریدی کے ٹویٹس ، پولنگ ہو یا سیاسی بیان ، سبھی جگہوں پر اک مقابلے کی سی کیفیت ہے ۔ پاکستان کا نام عالمی سطح پر اجاگر کرنے والے اور پاکستان کو 25برس عالمی چیمپئن بنانے والے عمران خان تک نے فائنل کے حوالے سے اپنے جذبات کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ قومی ٹیم روایتی حریف کو اس بار بھی میدان میں شکست دیکر اس آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کو حاصل کرے گی۔
پاک بھارت کے درمیان میدان کرکٹ کی تاریخ جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ دونوں ٹیموں کے درمیان اب تک 8فائنل ہوئے اور یہ بات پاکستان کیلئے قابل فخر ہے کہ ان 8فائنلز میں پاکستان کی ٹیم 6بار جبکہ بھارت کی ٹیم 2بار فاتخ بنی۔ اسی تناظر میں ہی اگر دیکھا جائے تو باوجود بھارتی ٹیم کی کارکدگی کے اور ان کو ملنے والے زیادہ مواقعوں کے جو کہ ان کی اچھی کارکردگی کا باعث بن رہے ہیں جبکہ اس جانب پاکستان کی ٹیم کی کارکردگی بھی عیاں تاہم اس کے باوجود قومی ٹیم جب بھی بھارت سے مقابلے کیلئے میدان میں اترتی ہے تو یہ مقابلہ صرف اس کا نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ مقابلہ پوری پاکستانی قوم کا ہوتا ہے ۔ پوری کشمیری قوم کا مقابلہ ہوتا ہے۔
کشمیری عوام جو ان دنوں ہی نہیں گذشتہ صدی سے بھارتی مظالم کو سہہ رہے ہیں اور ان کی آواز ، ان کے جذبات اور ان کے معاملات و مسائل کو آج تلک اقوام متحدہ نے حل نہیںکیا ہے ۔ اقوام متحدہ نے کشمیری عوام پر مظالم کو رکوایا تک نہیں اس کے باوجود وہ قوم پاکستان سے الحاق کیلئے سرگرم عمل ہے ۔ اپنی آزادی کیلئے اب تو صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ وہاں کی مائیں ،بہنیں ، بیٹیاں ، بچے اور بوڑھے سبھی اپنے بیٹوں سے ساتھ اپنی جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کرانے کیلئے اٹھ گئے ہیں ۔ پاک بھارت میچ میں پوری کشمیری عوام پاکستان کی ٹیم کے ساتھ ہوتی ہے ۔ ان کی کامیابی کیلئے دعائیں کرتی ہے اور جونہی فائنل کا کپ پاکستانی ٹیم کا کپتان اور پوری ٹیم اٹھاتی ہے تو اس لمحے کشمیری و پاکستانی عوام جسمانی طور پر تو اپنے اپنے علاقوں میں لیکن ذہنی طور پر اسی میدان میں ہی اپنے کھلاڑیوں کے ہمراہ ہوتے ہیں ۔
اس لئے ہم جیتیں گے اور ان شاء اللہ نہ صرف کرکٹ کا یہ فائنل ہم جیتیں گے بلکہ بھارت کے ساتھ ہونے والا ہر مقابلہ ہم جیتیں گے ۔ حافظ سعید نے 2017کو کشمیریوں کا سال قرار دیا تھا جس کے بعد انہیں منظم منصوبہ بندی کے ذریعے گھر میں ہی قید کر دیا گیا لیکن اس وقت کشمیر کی صورتحال دنیا کے سامنے ہے ، 7لاکھ سے زائد بھارتی فوج کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ ڈھا رہی ہے اس کے باوجود پوری کشمیری قوم اپنی آزادی کیلئے عملی طور پر میدان میں آچکی ہے ۔ حافظ سعید کو تو نظر بند کئے ہوئے 130سے زائد دن ہوگئے ہیں لیکن بھارت دیکھے اور اس کے ساتھ وہ تمام ممالک بھی دیکھیں کہ اس حافظ سعید کے جذبات جو کشمیری قوم کے عکاس ہیں وہ ختم تو دور کی بات ہے کم تک نہیں ہوئے ،جس طرح انہیں اپنی آزادی کا یقین ہے بالکل اسی طرح انہیں آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے اس فائنل کی جیت کا بھی یقین ہے۔
Pakistan vs India
ان شاء اللہ بھارت اپنی پاکستان کے خلاف پہلی جیت کو ایک جانب رکھے اور دیکھے کہ اسے فائنل میں شیروں کے جذبے لئے پاکستانی کھلاڑیوں کا سامنا کرنا ہے ۔ ماضی اس بات کا عکاس ہے کہ فائنل جب پاک بھارت کا ہوا ہے تو اس میں جیت کا سہرا پاکستان کے سر رہا ۔ لہذا امید واسق ہے کہ اس بار بھی ہم جیتیں گے ۔ بھارت کرکٹ ٹیم سمیت اس کی پوری عوام قومی کرکٹ ٹیم کے بلے باز جاوید میانداد کو کبھی نہیں بھلا سکے جنہوں نے شارجہ گذشتہ صدی میں شارجہ کے کرکٹ گرائونڈ میں فائنل کے دوران آخری گیند پر درکار 4رنز کو اک 6کی صورت میں پورا کردیا تھا ، اسی طرح پوری قوم اور کرکٹ کھیلنے والے اب کے سارے کھلاڑیوں سمیت آنے ولے کھلاڑی بھی عمران خان کو نہیں بھلا پائیں گے جنہوں نے 1992میں عالمی کرکٹ کپ کا تاج قومی ٹیم کے سر پہنایا تھا ۔ لہذا اس شاندار ماضی کو دیکھتے ہوئے اور اس نقطے کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے کہ بھارت اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے جاری کاوشوں میں جس قدر بھی اضافہ کرلے ، قومی ٹیم کو عالمی مقابلوں سے دور رکھنے کی جتنی بھی کوشش کرلے اسے ناکامی ہوگی ۔ بھارتیوں کیلئے قابل غور بات تو یہ ہے کہ وہ پاکستان سے کرکٹ کھیلنے تک تو تیار نہیں ہوتے اور اس بات پر بنگلہ دیش بھی ان کا ساتھ دیتا ہے لیکن ان دونوں ٹیموں پر ایسا وقت آیا کہ پاکستان سے فائنل کھیلنے کیلئے بھارت اور بنگلہ دیش میں مقابلہ ہوا جسے بھارت نے جیت کر پاکستان سے کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا ۔ بھارت اس اعزاز کے باوجود پاکستان ٹیم کے کپتان کی سربراہی میں کھیلنے والی ساری ٹیم کی انتھک محنت اور پوری کشمیری و پاکستانی قوم کی دعائوں کی بدولت یہ ایک فائنل ہی نہیں ہر ایک فائنل ہم جیتیں گے۔ان شاء اللہ