تحریر : شیخ خالد زاہد پاکستان کرکٹ ٹیم جب چیمپینز ٹرافی میں شرکت کیلئے انگلینڈ روانہ ہو رہی تھی تو شائد ہی کوئی ایسا فرد ہوگا جس نے یہ کہنے سے گریز نا کیا ہو کہ گھومنے پھرنے جا رہے ہیں اسکی ایک وجہ یہ بھی تھی کے دنیائے کرکٹ میں اٹھویں نمبر پر تھے اور یہ آٹھواں نمبر بھی ویسٹ انڈیز کے حالیہ دورے کی طوفیل نصیب ہوا تھا ۔ لیکن اپنے وارم اپ میچ میں بنگلا دیش کی ٹیم کو ایک ناقابلِ یقین حدف کو عبور کر کے شکست سے دوچار کیا ۔ بنگلا دیش کو ہرانا بڑی بات نہیں تھی بڑے بات تھی ۳۴۲ رنز کا پہاڑ عبور کیا تھا۔ جس میں قلیدی کردار ایک نوجوان آلراؤنڈر فہیم اشرف نے ادا کیا تھا۔ گوکہ اس میچ کی کوئی حیثیت نہیں تھی مگر صاحبِ نظر لوگوں کو یہ میچ کھٹکا تھا کہ پاکستان نے اتنا بڑا حدف کس طرح سے عبور کر لیا تو معلوم یہ ہوا کہ کوئی فہیم اشرف نامی کھلاڑی نے بوم بوم آفریدی کی یاد تازہ کردی۔ اب پاکستانی قوم کے دل میں اس کھلاڑی کو کھیلتا ہوا دیکھنے کی دبی دبی خواہش نے سر اٹھانا شروع کیا۔ پاکستان نے اپنا پہلا میچ اپنے روائتی حریف بھارت سے کھیلنا تھا اور ساری دنیا اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ پاکستان بھارت سے کسی بھی بڑے ٹورنامنٹ میں نہیں جیتااسلئے دل کو بہلانے کیلئے ہم پاکستانی یہ کہتے ہیں کہ پاکستان جیت جائے گا مگر پاکستان نے تاریخ نہیں بدلی اور پاکستان کو بدترین شکست کا سامناکرنا پڑا ۔ اس شکست کیلئے ہم پاکستانی تو تیار تھے کیونکہ ہمیں پتہ تھا کہ مصباح ، یونس اور آفریدی کے بغیر پاکستانی ٹیم کیا کرسکے گی۔
پاکستانی ٹیم نے پہلا میچ ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنے کیلئے کمر بستہ ہوئے اپنے آپ کو یک جان کیا اور پھر شکست جیسے لفظ کو پلٹ کر نہیں دیکھا ۔سری لنکا سے میچ میں کپتان سرفراز نے ذمہ داری کی وہ ناقابلِ فراموش مثال قائم کی جو ناتوسری لنکن بھول پائنگے اور نا ہم پاکستانی۔ اسکے بعدتو جنوبی افریقہ اور انگلینڈ جیسی ٹیموں کو بھرپور انداز سے شکست دیکر فائنل تک رسائی حاصل کی، ان میچز کے بعد پاکستان کو غیریقینی ٹیم کا باقاعدہ خطاب دیا گیا کہ یہ وہ ٹیم ہے کب کیا کرے گی پتہ چلانا مشکل ہے، اب پھر فائنل میں بھارت مدِ مقابل تھا اور ناقابلِ شکست رہا تھا ، بھارت کی پہاڑ جیسی بلے بازوکی لائن جسکی ساری دنیا ہی معترف ہے ۔ مگر صورتحال کچھ مختلف دیکھائی دے رہی تھی یہاں پاکستانی بھی پہلی جیسی روش پر نہیں چل رہے تھے ایک طرف دعاؤں کا سہارا تھا تو دوسری طرف پاکستان کی بہترین بولنگ اٹیک پر بڑا بھروسہ تھا۔فائنل میں بھارت نے ٹاس جیت لیا، کیونکہ پاکستان رنز کا تعاقب قدرے بہتر انداز سے کرنے میں کامیاب رہا تھا تو بھارت نے پاکستان کو پہلے بلے بازی کرنے کی دعوت دی اور پاکستان نے بھارتی کپتان کے اس فیصلے کو غلط ثابت کردیکھایا ۔ بھارت کیخلاف اپنے کیرئیر کا پہلا میچ کھیلنے والے فخرزمان نے سینچری اسکور کی اور اظہر علی کے ساتھ مل کر ایک بہت پائیدار بنیاد ڈالی جسے آخیر میں حفیظ نے بھرپور انداز سے اختتام پذیر کیا۔
پاکستانی قوم دبی دبی خوشی منارہی تھی کیونکہ انکو خطرہ تھا کہ جس ٹیم کے پاس ایک روزہ میچوں میں دو بار دو سو رنز بنانے والاکھلاڑی ہو ، جس ٹیم کے پاس ٹورنامنٹ کا بہترین بلے باز ہو، جس ٹیم کے پاس چھ گیندوں پر چھ چھکے لگانے والا بلے باز ہو اور جس ٹیم کا کپتان اول درجے کا بلے باز ہو انکے لئے یہ اسکور شائد کافی نا ہو۔ مگر پاکستانیوں کے دل میں یہ بات بھی تھی کے محمد عامر ، جنید خان اور حسن علی نے بڑے بڑے ستون گرادئے تو یہ کس کھیت کی مولیاں ہیں اور ایسا ہی ہوا جہاں قوم کی دعاؤں کا سہارا تھا وہیں انتہائی عمدہ بولنگ اور فیلڈنگ نے بھارتی بلے بازوں کی آہنی دیوار کو ریت کی دیوار کی طرح ڈھادیا۔الحمدوللہ ! پاکستان تاریخی فتح سے ہمکنار ہوااور چیمپینز کا چیمپیئن بنا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کی ایسی کارکردگی تسلسل کے ساتھ شائد ہی کبھی دیکھی ہو، ہوتا یہ رہا ہے کہ کبھی بولنگ اچھی تو کبھی بلے بازی اچھی تو کبھی فیلڈنگ اچھی مگر اس ٹورنامنٹ میں پہلے میچ کے بعد سارے شعبوں میں بھرپور محارت نظر آئی۔
اس جیت میں جہاں کپتان نے اعلی پائے کی قیادت کی وہیں ٹیم مینجمنٹ کا کردار بھی بھرپور انداز میں فعل نظر آیا۔ پہلے ہی میچ میں یہ بھانپ لیا گیا کہ احمد شہزاد اور وہاب ریاض ٹیم کیلئے کارگر ثابت نہیں ہورہے اور ایک بہت ہی دلیرانا فیصلہ فخرزمان جیسے بلے باز کو بطور اوپنر کھیلانے کا فیصلہ کیا گیا، بین الاقوامی کرکٹ میں داخلہ اور وہ بھی دنیا کی بہترین ٹیموں کے سامنے بغیرکسی بین الاقوامی مقابلوں کے تجربے کے۔ فخر زمان نے اپنے چناؤ کو کتنا صحیح ثابت کیا اور جس نے چنا ، کتنا صحیح چنا اب یہ بات سب کے سامنے ہے ۔ دوسری طرف وہاب ریاض کی جگہ جنید کو کھیلانا اور پھر شاداب اور فہیم اشرف کو گاہے بگاہے استعمال کرنا بہت دلیرانا فیصلے تھے ۔ ان فیصلوں کی بدولت ہی پاکستان نے ناصرف بھارت کوعبرتناک شکست دی بلکہ ٹورنامنٹ جیت کر قوم کا سرفخر سے بلند کردیا اور دنیا کو یہ بھی بتا دیا کہ آپ ہم پر بھلے کسی بھی قسم کی پابندیاں لگادیں کرکٹ ہمارا جنون ہے۔
پچھلے دنوں پاکستان میں ٹیلنٹ کے نا ہونے کو لے کر بہت بحث و مباحثے ہوئے اورکم وبیش تمام تجربہ کار اور نامور کھلاڑی اس بات پر متفق نظر آئے کہ پاکستان میں ٹیلینٹ کی کمی ہے ۔ تو جناب فخرزمان جیسا بلے باز ، عماد وسیم اور فہیم اشرف جیسے آلراؤنڈر، شاداب خان جیسا اسپنر اورسب سے بڑھ کر حسن علی جیسا بہترین تیز بولر کسی اور ملک سے منگوائے ہوئے کھلاڑی ہیں۔ ان نوجوان کھلاڑیوں نے ناصرف ان ناقدین کے منہ بھی بند کردئے بلکہ اپنی کارگردگی کے تسلسل سے اپنے سینئر کھلاڑیوں کو بھی انکی کارکردگی کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیا۔
سرفراز کی قیادت میں پاکستان کی اتنی شاندار کارکردگی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے امید کی جاسکتی ہے کہ پاکستان اس جیت کے اور ایسی کارکردگی کے سفر کو جاری و ساری رکھے گا۔ اور اب میرٹ پر کھلاڑیوں کو موقع دیا جائے گا۔ انشاء اللہ ! پاکستان ان نوجوانوں میں موجود خداداد صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے نکھارے گا اور آنے والے وقتوں میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم بے یقینی کا ٹیگ ہٹانے میں کامیاب ہوجائے گی اور صرف جیتنے والی ٹیم بن کر سامنے آئیگی۔ تمام پاکستانی قوم سرفراز اور انکی پوری ٹیم کو عید سے پہلے عید کا اتنا بڑا تحفہ دینے پر بھرپور شکریہ ادا کرتے ہیں اور اپنی ٹیم کی کامیابی کیلئے ہمیشہ دعاگو رہینگے۔