تحریر : ریاض جاذب ساغر صدیقی تقسیم کے بعد اکیلا پاکستان آگیا اس کا یہاں کوئی نہیں تھا لاہور کی سڑکیں اور ساغر لازم وملزوم تھے۔ جنوری 1974 میں ساغر پر فالج کا اٹیک ہوا، اور جولائی 1974 میں انتقال کرگئے۔ ساغر جس کا زمانے کوئی اپنا نہیں تھامرنے کے بعد خداترس لوگوں نے اس کو میانی صاحب قبرستان میں دفن کردیا۔ یزدانی جالندھری نے ان کی وفات پر قطع لکھا۔
ساغر نے رخت زیست جہاں سے اٹھا لیا افسردہ اس کے غم میں ہیں یاران انجمن
ساغر صدیقی جس قبرستان میں دفن ہیں وہاں اپنے وقت کے بڑے بڑے نامور شاعر ادیب فن کار سیاست دان اداکار ، صنعت کار سرمایہ دار بھی دفن ہیں اپنے وقت کے مشہور لوگ جن کی ایک جھلک دیکھنے اور ملنے کے لیے مہینوں لوگ انتظار کرتے تھے وہ بھی اسی قبرستان میں سورہے ہیں ان میں کئی تو ساغر کے ہم عصر بھی تھے۔ مثال کے طور پر میڈم نوجہاں ، قتیل شفائی، احمد فراز، فیص احمد فیض، سنتوش کمار اور ان کے بھائی درپن شامل ہیں ان کی زندگی میں ساغر سڑکوں پر تلخیوں میں رہتا اور افسردگی و آوارگی کا نمونہ تھا بے خودی میں اس کو کھانے پینے اور پہننے تک کا ہوش نہ تھا ، یاردوست دور، دور رہتے کہیں وہ ان سے ”چونی نہ مانگ لیں” ساغر ہر کسی سے نہیں اپنی جان پہچان والوں سے بڑے سٹائل سے کہتے ”ایک چونی مل جائے گی” دن بھر میں یہ کئی چونیاں دس سے پندرہ روپے بن جاتے اور وہ اس سے اپنے لیے سامان پیدا یعنی خرید کرتے۔ بے خودی اور تلخیوں میں رہنے والے ساغر میانی صاحب میں بڑے خوش ہیں زمانے کی تلخیاں یہاں انہیں تنگ نہیں کرتی وہ کسی سے چونی نہیں مانگتا بلکہ روزانہ کئی ساغر اس کے لنگر خانہ سے کھاتے ہیں۔ ساغرمعاشرتی نامناسب ریوں سے نالاں تھا اور تبھی تو وہ اس کا اظہار کرگئے کہ
توہین ہے دروہش کا اس شہر میں جینا ہوفاقہ کشی نام جہاں صبر ووفا کا
میانی صاحب میں دفن اپنے وقت کے بادشاہوں کی قبروں پر عام لوگ تو ایک طرف ان کے اپنے بھی نہیں آتے مگر ساغر جس سے لوگ دور بھاگتے تھے اس کی قبر پر ہجوم رہتا ہے ساغر جہاں دفن ہے اسی قبرستان میں اس کے نام کا ” ساغرلنگرخانہ بھی چلتا ہے اس لنگر خانے کے منتظمین کہتے ہیں کہ ساغرکا لنگرجاری وساری ہے۔ کئی لوگ اپنا نام تک نہیںبتاتے مگر لنگر خانہ کے لیے نذرانہ دے جاتے ہیں۔ افلاس میں مرنے والا ساغرجسے لوگ فقیر کہتے تھے مرنے کے بعد بادشاہ ساغر ہیں ساغر کا شعر ہے کہ
یاد رکھنا ہماری تربت کو قرض ہے تم پہ چار پھولوں کا
میانی صاحب میں جاکر دیکھا جاسکتا ہے کہ وہاں ساغر کی قبر پر چار پھول نہیں بے شمار پھول ڈالے جاتے ہیں۔ جب جنرل ایوب خان جب اقتدار میں آئے تو ساغر صدیقی نے اپنی ایک نظم کے شعر میں لکھا کیا ہے صبر جو ہم نے ہمیں ایوب ملا کسی نے یہ نظم ایوب خان تک پہنچا دی جب وہ لاہور آئے تو انہوں ساغر سے ملنے کی خواہیش کی تو کی ہر طرف پولیس والے دوڑ پڑے شام کو ایک پولیس والے کو ساغر ایک پان شاپ پر کھڑے ملے تو اس پولیس والے کی جان میں جان آئی اور اس نے ساغر سے مدعا بیان کیا کہ ان سے صدر ایوب خان ملنا چاہتے ہیں ساغر نے نہ ملنے کی رٹ چھوڑی اور پولیس والا اسی طرح اصرار کرتا رہا تو ساغر نے زمین پر پڑی ہوئی خالی سگریٹ کی خالی ڈبیاں اٹھائی اور اس پر لکھا کہ
ہم سمجھتے ہیں ذوق سلطانی یہ کھلونوں سے بہل جاتا ہے
پولیس والے کو کاغذ کو ٹکڑا دیا کہا کہ جاؤ صدر صاحب کو دے دینا وہ سمجھ جائیں گے۔