راولپنڈی (جیوڈیسک) پاکستان کی قید میں موجود بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو نے اپنے دوسرے اعترافی ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ میں پاکستان کے بحری اثاثوں کی جاسوسی کیلئے 2 مرتبہ کراچی آیا، بحریہ کے ساحلی علاقوں میں تنصیبات اور اثاثوں کی معلومات اکٹھی کیں، را کو اندازہ تھا کہ 2014ء میں مودی کی حکومت ہو گی، اسی وجہ سے میری خدمات را کے حوالے کی گئیں۔ کلبھوشن یادیو کا مزید کہنا تھا کہ کراچی، بلوچستان، کوئٹہ، تربت میں دہشتگردی کرانا ذمہ داری تھی، بحریہ کے ساحلی علاقوں میں تنصیبات اور اثاثوں کی معلومات اکٹھی کیں۔
کلبھوشن نے مزید کہا کہ حکمت عملی کے تحت ریڈار، سوئی گیس پائپ لائنز اور بس اڈوں کو نشانہ بنایا جاتا تھا، کراچی اور مکران کے ساحلی علاقوں میں دہشتگردانہ کارروائیوں کی منصوبہ بندی را کے سربراہ آلوک جوشی سے مل کر کی، اس ملاقات میں انیل کمار بھی میرے ساتھ تھے۔ کلبھوشن یادیو نے اپبنے اعترافی بیان میں مزید کہا کہ میں ایران کے ساحلی شہر چاہ بہار میں رہ رہا تھا، ایران میں کامنڈا ٹریڈنگ کمپنی کے نام سے کاروبار بھی شروع کر رکھا تھا، یہ ایک خفیہ اور اور غیرسفارتکار آپریشن تھا۔
اس کا مقصد بلوچ مزاحمت کاروں اور دہشتگردوں سے ملاقاتیں کرنا تھا، میں را کو مزاحمت کاروں کے دہشتگرد سرگرمیاں کرنے سے متعلق آگاہ کرتا تھا، مزاحمت کاروں اور ان دہشتگردوں کی ضروریات سے بھی را کو آگاہ کرتا تھا، اس بار میرا پاکستان آنے کا مقصد مکران کی ساحلی پٹی سے 30 سے 40 را اہلکاروں کو پاکستان میں داخل کرنا تھا، اس مقصد کیلئے بی ایل اے سے تعاون سے ہونا تھا۔
کلبھوشن نے بتایا کہ انیل کمار سی پیک منصوبہ مکمل ختم کرنے کیلئے دہشتگردی بڑھانا چاہتا تھا، را نے زاہدان میں پاکستانی قونصل خانے پر حملے کا بھی منصوبہ بنایا تھا، پاکستانی قونصل خانے پر فوجی طرز کا حملہ بلوچ قوم پرستوں کے ذریعے کرایا جانا تھا، منصوبے کے تحت گرنیڈ، آر پی جی یا بارودی سرنگ کے ذریعے قونصل جنرل کو نقصان پہنچانا تھا۔
بھارتی جاسوس نے بتایا کہ ایران میں موجود را افسران اور بلوچ قوم پرست اس منصوبہ بندی کا حصہ تھے، میں پاکستانی قونصل خانے پر حملے کے منصوبے سے مکمل طور پر آگاہ تھا، ہماری بھرپور کوشش تھی کہ پاک سرزمین پر را کے اہلکاروں کو لایا جائے، را اہلکاروں کو پاکستان لانے کا مقصد عسکریت پسندوں کے ذریعے پاکستان میں اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنانا تھا، ہمارا مقصد فوج کی طرز پر ٹیم ورک کے ساتھ کارروائیوں کو انجام دینا تھا۔
بلوچستان کے سمندری علاقوں میں کوئی تحریک موجود نہیں تھی، چاہتے تھے کہ بلوچ عسکریت پسندوں میں سے ایک گروہ تیار کیا جائے اور یہ گروہ ہمارے ایک اشارے پر کوئٹہ، تربت اور دیگر اندرونی علاقوں میں کارروائی کر سکے، ہم نے بلوچستان اور کراچی کے علاقوں میں عسکریت پسندوں کو مالی طور پر مستحکم کیا اور انہیں اسلحہ، ہتھیار، گولہ بارود اور دیگر ساز و سامان بھی فراہم کیا۔