تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری تقریباً پورا پاکستان بالخصوص بیشتر نوجوان نسل ہڈ حرامی کی زندگی کی عادی ہوتی چلی جارہی ہے نوجوان رات کو دیر تک اپنی تعلیم پڑھائی لکھائی نہیں بلکہ لیپ ٹاپ اور سیل فون پر مصروف لگے رہتے ہیںفون کمپنیوں نے راتوں کو تقریباً فری پیکج دے رکھے ہیں تاکہ نوجوان آپس میں راتوں کو دیر تک اپنی محبوبائوں اور”خصوصی دوست”خواتین سے باتیں کرتے رہیں۔
(Early to bed and early to rise makes a man healty whealthy and wise)
یعنی جلدی سونا جلدی اٹھنا آدمی کو صحتمند،دولت مند اور عقل مند بناتا ہے،اس مقولہ کی روشنی میں ہم اپنے رویوں پر غور کریں تو ہم بالکل الٹی سمت میں سفر کر رہے ہیں۔عموماً رات دیر گئے 12یا1بجے کے بعد سوتے ہیں اس وقت ہم نماز تہجد بھی ادا کرسکتے ہیں مگر جدید ترقی پسندانہ نام نہاد سوچ میں اس کی مہلت کیونکر اور کہاں ؟سکول کالجز صبح آٹھ بجے پہنچنا ہوتا ہے اس لیے زیادہ طلباء پہلے کئی پیریڈز میں حاضر نہیں ہوتے کہ یہ نسل نیند کے خراٹے لے رہی ہوتی ہے۔
بمشکل10,11بجے جاگیں گے ضروری دفتری امور نمٹانے کے لیے پہنچنا نا ممکن،دنیاوی دھندا بھی نہیں کرسکتے۔اگر دوکاندار ہیں تو دیر سے پہنچنے سے ویسے ہی نحوست طاری رہتی ہے اور نقصان الگ ہوتا ہے۔کچہری میں دیر سے پہنچنے والے وکلاء اپنی پیشیاںنہیں بھگتا سکتے۔اس طرح پکے کلائینٹ بھی ٹوٹ جاتے ہیں ۔صبح کی سیر جو کہ صحت اور تندرست جسم کے لیے ضروری ہے اس سے بھی محرومی ہو جاتی ہے۔ اوزون گیس جو صبح صبح آسمانوں کی بلندیوں سے زمین کی قریبی سطحوں پر آچکی ہوتی ہے۔ اور آکسیجن گیس کی خالص ترین صورت ہے اور صحت کے لیے انتہائی مفید ہوتی ہے دیر سے اٹھنے والے مسلسل محروم رہتے ہیں۔
سیرت طیبہ کے مطابق تو سولہ سال کی عمر کے نوجوانوں کو رزق حلال کی تلاش کے لیے نکلنااور گھر والوں ماں باپ اور چھوٹے بہن بھائیوں کی سپورٹ کرنی چاہیے مگر ہم تو خواب خرگوش میں مست خراٹے لے رہے ہوتے ہیںبزرگ بوڑھے صبح جاگ کر اپنی نوجوان اولاد کو سوتا دیکھ کر کڑھتے ہیں مگر انہی کا خصوصی لاڈ پیار بچپن سے جوانی تک پہنچنے والوں کو ہڈ حرام بنا دیتا ہے۔پھر اس نشہ کا ذکر کرنا بھی مناسب ہوگا۔ جو اب ہماری ہڈیوں میں رچ بس چکا ہے وہ ہے چائے کا استعمال۔ میڈیکل سائنس کے مطابق چائے میں خصوصی IngredientکیفینCaffeine))ہے فارموکولوجی فارمولہ کے مطابق ہر وہ دوائی جس کے آخر میں INEلگتا ہو وہ کسی نہ کسی صورت اعصاب (Nervous System)کو متاثر کرتی ہے یعنی یا تو اعصاب کو Stimulateیا پھرDepress کرتی رہتی ہے۔ اسی طرح دوسری اشیاء ادویات نکوٹین Nicotine،اسپرینAspirine ،ڈسپرینDisprine،نوولجین Novalgine،پیتھیڈینPethidine،ہیروئن Heroine وغیرہ کے بھی آخر میں INEہے اس لیے ان کا بھی متواتر اور زیادہ استعمال انسانی جسم کو ان کا عادی بنادیتا ہے کہ جب بھی انکی خون میں کمی ہوگی تو طلب پیدا ہوگی۔
اس طرح یہ سخت نقصان دہ ہیں چائے میں موجود کیفین Caffeine کے مسلسل استعمال سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے چائے سے بلاشبہ جسم میں چستی آجاتی ہے اور چائے پینے کے آدھ پون گھنٹہ تک آدمی اپنے آپ کو ایکٹواورہشاش بشاش سمجھتا ہے مگر اگلے آدھ گھنٹہ میں کیفین کے الٹے اثرات مرتب ہونے شروع ہوجاتے ہیں اور آدمی چائے پینے سے قبل والی حالت پر واپس آجاتا ہے ۔مگرستم در ستم یہ ہے کہ اس سے اگلا آدھا گھنٹہ انتہائی تکلیف دہ اور حیرانگی کا باعث ہے کہ آپ کا جسم اور دماغی صلاحتیں یعنی پورا نروس سسٹم ڈپریشن کا شکارہو جاتا ہے یعنی فرض کریں کہ چائے پینے سے قبل ہم30کی قوت سے کام کر رہے تھے پھر چائے پینے کے بعد یہی قوت اور کارگردی 40تا45تک پہنچ جائے گی اور ہم اپنے آپ کو تیزی سے کام کے قابل سمجھیں گے مگر اگلے ہی آدھ گھنٹہ میں یہ قوت کاکردگی بتدریج گھٹتے گھٹتے 30تک پہنچ جائے گی اور اس سے اگلے آدھ گھنٹے میں یہ قوت کارگردی 30سے بھی کم ہو کر پندرہ بیس تک آن پہنچے گی یعنی آپ بالکل ہاتھ پائوں ہلانے سے بھی اپنے آپ کو معذور تصور کرتے ہیں اور چلنے پھرنے کام کرنے کو قوت کار کی کمی کی وجہ سے دل نہ چاہے گاپھر چائے منگوانا پڑے گی۔
اس کے شدید گرم ہونے کی وجہ سے پینے کے عمل میں پھر خاصا وقت ضائع ہوگا۔مقولہ کے مطابق جنہوں نے دنیا میں کوئی کارنامہ کرنا ہے وہ اپنا ایک لمحہ بھی ضائع نہ کریںآپ دن میں کئی بار چائے پیتے رہیں گے ۔چائے پینے والے حضرات کا صبح کا اٹھنا تو سبھی کو بخوبی یاد ہے کہ ایسا شخص چار پائی بستر سے نیچے اتر کر چلنے پھرنے سے ہی اپنے آپ کو معذور اور سخت تکلیف میں مبتلا سمجھتا ہے اسےBed Teaیعنی بستر میں بیٹھے بٹھائے بغیر منہ ہاتھ دھوئے اگر چائے اس کے حلق میں نہ انڈیلی جائے تو اسے معذورِ محض ہی سمجھیںچائے کے عادی افراد کوسگریٹ کے کش مزے مزے لے کر پینا بھی “ڈبل مزا ” دیتا ہے اس لیے اسے مزید انتہائی خطرناک نشہ میں مبتلا ہوجانا پڑتا ہے اور قیمتی سرمایہ کا ضیاع اور صحت کا نقصان ہوتا ہے۔دل پھیپھڑوں معدہ کی بیماریاں تیزی سے جسم میں پھیلتی جاتی ہیں اور ایک نارمل شخص کی نسبت ان کا عادی 10,15سال قبل ہی اگلی دنیا کو سدھار جاتا ہے۔ابتداًانڈو پا ک میں دلی کے بڑے چوک میں کمپنی ایک بڑا کڑاہا چائے کا لگاتی ،مفت پلاتی اور ساتھ ہی پائی دو پائی دیتی تھی جب لوگ عادی ہو چلے تو انہیں پڑیاں گھر لے جانے کے لیے مفت دینے لگے اور آج یہ سب سے مہنگی چیز ہمارے بجٹ میں شامل ہے سالانہ اربوں روپے ضائع کرتے اور د ن رات اپنے آپ کو تھکے ماندے محسوس کرتے ہیں اس کو تو کیا ہم سگریٹ کو بھی نشہ ماننے کو تیار نہ ہیں۔کاش ہم ان دونوں بہن بھائیوں سے نجات پاسکیں تو ہماری قوت کار دسیوں گنا بڑھ جائے گی۔