تحریر : واٹسن سلیم گل پاکستان ناقابل یقین طور پر چیمپئن ٹرافی جیت گیا۔مجھ سمیت سارا پاکستان چیمپئینز ٹرافی جیتنے کی خوشی منا رہا تھا۔ میں اپنی فیملی کے ساتھ اتوار کی تمام ترین مصروفیات کو ترک کر کے میچ دیکھ رہا تھا۔ کھیل کے آخری حصہ میں کچھ غیر پاکستانی مہمان بھی موجود تھے۔ پاکستان کی جیت کی خوشی میں ہم سب سمیت میری بیٹی سارہ بہت انجوئے کر رہی تھی۔ میں چینل تبدیل کر کر کے دیکھ رہا تھا کہ انڈیا کے سپورٹر میدان چھوڑ کر تیزی کے ساتھ واپس جارہے تھی۔ ہر طرف پاکستانی عوام جیت کی خوشی منا رہے تھے۔ کہ اچانک ٹی وی اسکرین پر ایک پاکستانی گروپ کو “گو نواز گو” کا نعرہ لگاتے دیکھا غور سے دیکھنے کے بعد پتا چلا کہ پی ٹی آئ کے گروپ نے نجم سیٹھی اور ان کی اہلیہ جگنو سیٹھی کو گھیر رکھا تھا۔ اور ان کو دھکے دے رہے تھے۔ اور بدتمیزی کر رہے تھے۔ میرے گھر کا ماحول تبدیل ہورہا تھا کیونکہ کسی کو سمجھ نہی آرہی تھی کہ اچانک کیا ہوگیا۔ گھر میں میرے علاوہ پاکستان کے سایسی حلات کو کوئ نہی جانتا تھا۔مہمانوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا انڈین اور پاکستانی گروپ آپس میں لڑ پڑے ہیں۔ مجھے بڑی شرمندگی ہوئ جب میں نے ان کو حالات سے آگاہ کیا۔ مجھے جتنا دکھ ہوا اس سے زیادہ افسوس مجھے اپنی فیملی کو سمجھاتے ہوئے ہوا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔
پاکستان تو جیت گیا مگر یہ پاکستانی کیا کر رہے تھے۔ یہ گروپ پی ٹی آئ کا گروپ تھا۔ لندن کی پولیس نے نجم سیٹھی اور ان کی اہلیہ کو ان کے چنگل سے نکالا۔ مجھے بڑا افسوس ہوا کہ جس شخص کی حکمت عملی سے ہم آج چیمپئن ٹرافی جیتے ہیں کیا وہ اس سلوک کا مستحق تھا؟۔ پاکستان سُپر لیگ کے ٹیلنٹ نے آج اس جیت میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ نجم سیٹھی سے کسی کو کتنا بھی اختلاف ہو مگر پاکستان کی کرکٹ میں ان کی خدمات کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہوگا۔ عمران خان کی نجم سیٹھی سے نفرت سمجھ سے باہر ہے پی ٹی آئ کا اخلاقی اقدار کو پس پُشت ڈال کر نجم سیٹھی کے ساتھ یہ سلوک عمران خان کی سوچ کی غمازی کرتا ہے۔ اگر عمران خان کو پینتیس پنکچرز کا دکھ ہے تو جوڈیشل کمیشن میں تو انہوں نے پینتیس پنکچرز کا زکر تک نہی کیا۔ نہ انہوں نے نجم سیٹھی کو کسی عدالت میں چیلنج کیا بلکہ نجم سیٹھی نے ہتک عزت کا دعوٰی کر رکھا ہے عمران اس کا جواب بھی نہی دیتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان جانتے ہیں کہ سچائ اگر سامنے آئ تو عمران خان پر تنقید کرنے والے کا رستہ اور صاف ہوجائے گا۔ نجم سیٹھی کے حوالے سے عمران نے بعد میں خود اقرار کیا کہ یہ سیاسی بیان تھا۔ نجم سیٹھی نے پی ایس ایل کا فائنل غیر ملکیوں کی شرکت کے ساتھ پاکستان میں کرا کے بین الاقوامی کرکٹ کے رستے پاکستان کے لئے کھولے ۔ مجھے پی ٹی آئ کے رویے میں جمہوریت نظر نہی آتی۔ کسی بھی جمہوری معاشرے یانظام میں اگر سوچ اور نظریے میں جمہوریت ہے تب تو جمہوریت ہے ورنہ یہ جمہوریت کسی کھوکھلے نعرے سے کبھی بھی نہی آسکتی۔ ہاں وقتی طور پر یہ نعرے سُننے میں خوشگوار لگتے ہیں مگر جلد ہی ان کی حقیقت سامنے آجاتی ہے۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی جمہورہت بلکل ایسے ہی ہے جیسے بھیڑ کی کھال میں بھیڑیا۔ اس جمہوری نظام کی خلاف عمران نے ایک اور جمہوری نظام کا نعرہ لگایا۔ اور عوام اس نعرے پر لبیک کہہ کر سڑکوں پر آگئ۔ مگر اب مایوسی ہوتی ہے۔
کم از کم مجھے تو لگتا ہے کہ عمران خان کے جمہوری کنٹینئر کے ٹائروں سے تبدیلی کی ہوا نکل رہی ہے اور جو تھوڑی بہت رہ گئ ہے وہ الیکشن میں نکل جائے گی۔ میں سمجھتا ہوں (ہوسکتا ہے غلط سمجھتا ہوں ) عمران خان کی طبیعت میں ہی جمہوریت نہی ہے میں زمانہ طالب علمی میں جب عمران خان کے میچز دیکھا کرتا تھا تب بھی مجھے اس میں ایک گھمنڈی کپتان نظر آتا تھا، اس کی باڈی لینگویج چہرے کے اتار چھڑھاؤ سے کبھی بھی مجھے یہ احساس نہی ہوا کہ کپتان صاحب دوستوں کے دوست ہیں۔ یا کم از کم کسی غریب یا اپنے سے کم کسی کے دوست ہو سکتے ہیں۔ مگر پھر بھی لوگ ان کے فین ہیں۔ اس لئے ان کی مقبولیت آج بھی عوام میں ہے چلیں ہمیں کیا ( جنہوں نے کھائ گاجریں ان کے پیٹ میں درد) اس کو پنجابی میں ٹرانسلیٹ کر لیجئے گا۔ عمران خان نے تبدیلی کانعرہ لگایا تو مجھ سمیت کروڑوں پاکستانی ایک نئ تبدیلی کا انتظار کرنے لگے میرے عمران خان کے بارے میں منفی نظریات کے باوجود بھی کہ شاید ایک سیاسی شخصیت کے طور پر ان کی شخصیت میں بھی تبدیلی ہو گی۔ مگر مایوسی ہوئ۔ آج بھی جلسوں جلوسوں میں یا کسی پریس کانفرنس میں کوئ پی ٹی آئ کا ہی غریب ورکر ان کے نزدیک ہو یا ان سے چھو جائے تو ان کی کونی اس ورکر کو ان سے دور لے جاتی ہے۔
پی ٹی آئ کی تربیت بھی اسی طرح ہوئ ہے، سیاسی تدبر اور فہم و فراست کی کمی کی وجہ سے ان کو اپنے بیانات پر یو ٹرن لیتا پڑتا ہے۔ کپتان صاحب کی سب سے بڑی کمزوری ان کے بغیر سوچے سمجھے بیانات ہیں ۔ شیخ رشید کے بارے میں کہتے تھے کہ ان کو اپنا چپڑاسی بھی رکھنا پسند نہی کریں گے اب وہ ان کے دوست ہیں۔ جنرل مشرف کے گُن گاتے تھے اب ان پر سخت تنقید کرتے ہیں۔ چوہدری افتخار کو انقلاب کی امید سمجھتے تھے۔ زرداری اور اس کے حواریوں کو پاکستان کا سب سے بڑا نقصان سمجھتے تھے۔ اب انہیں حواریوں کو پاکستان میں تبدیلی کی ضمانت سمجھنے لگے ہیں۔
الطاف حسین کو سزا دلانے کے لئے بریف کیس بھر کر لندن لیکر گئے۔ مگر اس بریف کیس میں سب کچھ تھا سوائے ثبوتوں کے۔ نوازشریف پر الیکشن میں دھاندلی کے خلاف دھرنے دیے۔ لوگوں کو سول نافرمانی پر اکسایا۔ سب سے کہا کہ وہ کسی قسم کے بھی بل ادا نہ کریں مگر بنی گالا کے تمام بلز وقت پر ادا کئے۔ اعلان کیا کہ ان کے پاس الیکشن میں دھاندلی کے خلاف ثبوتوں سے ایک کمرا بھرا ہوا ہے مگر جوڈیشل کمیشن کے پاس جاتے وقت سب کچھ لیکر گئے سوائے ثبوتوں کے۔ جس میڈیا گروپ نے اس عمران خان کو جب وہ تنہا تھے سپورٹ کیا سب سے زیادہ وقت اور عزت دی عمران خان اسی میڈیا کے خلاف سب سے زیادہ بیانات دیتے ہیں۔ عمران خان چاہتے ہیں کہ جو میں کہہ رہا ہوں وہ سب کہیں اور جو میں دیکھ رہا ہوں سب وہ دیکھیں ورنہ آنکھوں پر پٹی باندھ لیں۔ واہ ری تبدیلی