واشنگٹن (جیوڈیسک) ملکی دارالحکومت واشنگٹن سے پیر چھبیس جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق امریکی سپریم کورٹ نے آج پیر کے روز اپنے ایک فیصلے میں کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے عائد کردہ ان سفری پابندیوں پر جزوی طور پر دوبارہ عمل درآمد شروع کیا تو جا سکتا ہے تاہم ان پابندیوں کے کچھ حصوں پر عمل درآمد ابھی معطل رہے گا۔
ساتھ ہی سپریم کورٹ کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ عدالت ان سفری پابندیوں سے متعلق اکتوبر میں تفصیلی سماعت کے بعد ہی ایک مفصل فیصلہ سنائے گی۔ امریکی سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بارے میں صدارتی حکم نامے پر عمل درآمد کئی ذیلی عدالتوں نے عبوری طور پر روک دیا تھا۔
اے ایف پی کے مطابق عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ اس مسئلے کا تفصیلی جائزہ اس سال موسم خزاں میں لیا جائے گا تاہم امریکی حکام صدر ٹرمپ کے حکم پر جزوری طور پر دوبارہ عمل شروع کر سکتے ہیں۔
اس بہت متنازعہ ہو جانے والے صدراتی حکم نامے کے ذریعے ڈونلڈ ٹرمپ نے چھ ایسے ملکوں کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر محدود عرصے کے لیے پابندی لگا دی تھی، جن کی آبادی اکثریتی طور پر مسلمان ہے۔
اس حکم نامے کے ذریعے، جو پہلے حکم نامے کے متنازعہ ہو جانے اور قانونی طور پر چیلنج کیے جانے کے بعد امریکی صدر کا اس سلسلے میں کچھ تبدیلیوں کے بعد جاری کیا جانے والا دراصل دوسرا حکم نامہ تھا، ٹرمپ نے ایران، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر اس سال مارچ میں تین ماہ کے لیے پابندی لگا دی تھی۔
اس کے علاوہ اسی حکم نامے کے ذریعے خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کے امریکا میں داخل ہونے پر بھی چار ماہ کے لیے پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
ان سفری پابندیوں کے مخالفین نے ٹرمپ کے اس حکم نامے کو ’امتیازی بنیادوں پر لگائی گئی‘ ایسی پابندی قرار دیا تھا، جس کا امریکی آئین میں دی گئی ضمانتوں کے تحت دفاع کرنا ’ناممکن‘ تھا۔