تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان آئل ٹینکر آتشزدگی کے المناک سانحہ کی تفصیل سے تو ہر شخص آگاہ ہے جس نے نہ صرف سینکڑوں زندگیوں کا چراغ گل کردیا بلکہ جھلسے ہوئے درجنوں افراد اب بھی موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ توجہ طلب یہ ہے کہ اس سانحے کے اسباب پر غور کیا جائے کہ یہ غیر معمولی واقعہ آخر کیونکر پیش آیا ، اورآئل ٹینکر کے الٹنے کے بعد اور اس المناک سانحہ سے پہلے پولیس اور انتظامیہ نے کیا کردار ادا کیا ۔ بلاشبہ بہاولپور کی تحصیل احمد پور شرقیہ کے موضع رمضان کی بستی جوئیہ کے غریب اور مفلوک الحال علاقہ مکینوں کے لئے یہ آئل ٹینکر عذاب بن کر آیا، جس کے پٹرول کے لالچ نے انہیں زندہ جلادیا۔ ویسے تو آج پوری قوم محنت و ایمانداری کی بجائے شارٹ کٹ کی خواہاں ہے ، مذید یہ کہ ہمارے ٹی وی چینلوں پر دیکھائے جانے والے لاٹری نما انعامی پروگرامز نے ہر شخص کو لالچ میں مبتلا کر دیا ہے۔
انہیں دیکھ کر لوگ محنت کی بجائے جائز ناجائز ذرائع اختیار کررہے ہیں، اس بات سے قطع نظر کہ ہمارا معاشی، سماجی اور دینی پس منظر کیا ہے۔غور طلب بات یہ ہے کہ جہاں یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا یہ کوئی جنگل نہیں بلکہ کراچی کو پورے پاکستان سے ملانے والی مین شاہراہ ہے جہاں وقوعہ کے روز صبح چھ بجے آئل ٹینکر الٹنے کے بعد جب تیل رس رہا تھا اور سینکڑوں لوگ خواتین اور بچوں سمیت اس تیل کو گھریلو برتنوں اور شاپر بیگز میں بھر رہے تھے، اور ہائی وے سے گزرنے والوں نے بھی اپنی گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں روک کر تیل جمع کرنا شروع کردیا تھا اور بہت سے لوگ حادثہ دیکھنے کیلئے رکے ہوئے تھے تو اس وقت سب سے پہلے موٹروے پولیس بیٹ نمبر21 احمد پور شرقیہ کی موبائل یہاں پہنچی جس نے آئل ٹینکر کے گرد رکاوٹیں بنا کر وہاں سے گزرنے والی ٹریفک کو ڈائیورٹ کیا، موٹر وے پولیس کے چیف پٹرولنگ آفیسر سید رضوان شاہ کے مطابق موٹر وے پولیس نے لوگوں کو تیل جمع کرنے سے روکا اور انہیں کہا کہ اس سے حادثہ ہوسکتا ہے لیکن لوگ لالچ میں کوئی بات نہیں سن رہے تھے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ موٹروے جیسی ذمہ دار پولیس کے اہلکار آخر کیوں آئل ٹینکر میں پیٹرول کی صورت میں پڑے سانحہ کے خطرے کو بھانپ نہ سکے ؟ یہاں سے تیل اکٹھا کرتے لوگوں کو منتشر کرنے کے ٹھوس انتظامات کیوں نہ کئے گئے؟ آئل ٹینکر الٹنے کے بعد محض ڈرائیور، کنڈیکٹر کے بحفاظت باہر نکل آنے پر معاملہ ختم سمجھ کر آنکھیں کیونکر بند کرلیں؟ ٹینکر الٹنے اور آگ لگنے میں 30سے 40منٹ کا وقفہ تھا، اس دوران وقوعہ پر لوگوںکی تعداد بڑھتی رہی ، لیکن علاقہ پولیس جائے وقوعہ پر کیوں نہ پہنچی؟ اگر موٹروے پولیس اور علاقہ پولیس اپنی ذمہ داری نبھاتے تو اتنا بڑا سانحہ ہر گز نہ ہوتا۔ ایک عینی شاہد نے بتایا کہ میں وہاں موجود تھا جب آئل ٹینکر الٹ گیا تو اس کے بعد دیر تک پٹرول زمین پر گرتا رہا۔ اچانک ایک شخص نے ماچس نکالی اور سگریٹ جلایا اور ماچس کی تیلی زمین پر پھینکی جس سے آگ بھڑک اٹھی، اور سگریٹ پینے والا شخص وہاں سے فرار ہو گیا، تاہم اس ماچس کی تیلی نے تمام علاقے کو آگ کی لپیٹ میں لے لیا، جس کے بعد خوفناک دھماکہ ہوا اور وہاں موجود سینکڑوں افراد اس کی زد میں آ گئے۔عینی شاہد کے اس بیان کی روشنی میں دہشت گردی کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال قدیمی ہسپتال ہے لیکن یہاں برن یونٹ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے زخمیوں کو طبی امداد فراہم نہ کی جاسکی۔ جھلسنے والے افراد کو پہلے احمد پور شرقیہ کے تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال میں پہنچایا جاتا رہا لیکن وہاں علاج کی ناکافی سہولیات کے باعث انہیں الخدمت، ایدھی، فلاح انسانیت فاؤنڈیشن اور ریسکیو 1122 کی ایمبولینسوں کے ذریعے بہاول وکٹوریہ ہسپتال پہنچایاگیا، جہاں برن یونٹ نہ ہونے کی وجہ سے انہیںپاک آرمی کے ہیلی کاپٹروںمیں ائیر لفٹ کرکے نشتر ہسپتال ملتان کے پاک اٹالین برن یونٹ میں منتقل کیا گیا ۔ یہاں بھی جگہ کم ہونے کے باعث باقی مریضوں کو سی ون تھرٹی طیاروں کے ذریعے لاہور اور فیصل آباد کے ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔
اگرڈویژنل ہیڈ کوارٹر کے بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال میں برن یونٹ کی مناسب سہولت موجود ہوتی تو جھلسنے والے بہت سے افراد کی زندگی بچائی جاسکتی تھی۔ مگر آج کے جدید دور میں بھی بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال برن یونٹ سے محروم ہے جو کہ اس خطے کی تعلیم و صحت کے حوالے سے پسماندگی کی عکاسی کرتا ہے ۔ جنوبی پنجاب کے اس اہم اور تاریخی ہسپتال میں تیزاب گردی اور آتشزدگی کا شکار ہو کر آنے والے مریض علاج کی سہولت نہ ہونے کے باعث ایڑیاں رگڑ رگڑ کر ہلاک ہوجاتے ہیں، جبکہ2009ء میں بہاول وکٹوریہ ہسپتال میں برن یونٹ کی تعمیر کیلئے 453.715ملین روپے کے فنڈزمختص کئے گئے جن میں سے ایک ملین کے فنڈز جاری بھی ہوئے مگر پھریہ منصوبہ سرخ فیتے کی نظر ہو گیا ، اور جماعت اسلامی کے رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر سید وسیم اختر برن یونٹ کے قیام کے لیے گزشتہ آٹھ سالوں سے ہر بجٹ کے موقع پر حکومت سے بہاولیور میں برن یونٹ کے قیام کے لیے رقم مختص کرنے کا مطالبہ اور فنڈز کی عدم فراہمی پر احتجاج کر رہے ہیں، مگر حکومت نے آج تک اس پر کوئی غور نہیں کیا۔
حالانکہ ریاست بہاولپور ر قیام پاکستان کے وقت برصغیر کی دوسری امیر ترین ریاست تھی جہاں عوام کو صحت و تعلیم جیسی سہولیات مفت دستیاب تھیں، مگر آج محرومیاں یہاں کی عوام کا مقدر ہیں۔ اور وفاقی و صوبائی حکومت کی ساری توجہ میٹرو اور اورنج ٹرین پر ہے، تعلیم اور صحت اس کی ترجیحات ہی نہیں ہیں اسی وجہ سے یہاں کے عوام بحالی صوبہ بہاولپور کا مطالبہ کرتے ہیں۔ آئل ٹینکر کے المناک سانحہ پر کہ جس میں جھلسنے کے باعث متعدد نعشوں کی شناخت تک ممکن نہیں رہی پوری پاکستانی قوم حالت غم میں ہے ، ہر ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل مغموم ہے ۔ یہ افسوسناک واقعہ جہاں حکومت اور پولیس کی ذمہ داریوں کی قلعی کھولتا ہے وہاں ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ اس دنیا میں مال مفت نام کی کوئی چیز نہیں ، ہر مال کی کوئی نہ کوئی قیمت ہے، کہیں پیسہ، کہیں عزت نفس اور کہیں اپنی قیمتی زندگی۔ اللہ تعالیٰ اس المناک سانحے میں جاں بحق افراد کی مغفرت فرمائے ، زخمیوں کو صحت عطاء فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے، آمین۔
Rana AIjaz Hussain
تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان ای میل :ranaaijazmul@gmail.com رابطہ نمبر:03009230033