اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستانی حکومت نے الزام لگایا ہے کہ بھارت نے اپنے ایسے سینکڑوں سکھ شہریوں کو پاکستان آنے سے روک دیا ہے، جو ایک مذہبی تہوار میں شرکت کرنا چاہتے تھے۔ ان سینکڑوں بھارتی سکھوں کو پاکستان کے ویزے بھی جاری کیے جا چکے تھے۔
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے بدھ اٹھائیس جون کو موصولہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت نے ان سکھ یاتریوں کو دونوں ملکوں کی مشترکہ سرحد پار کر کے پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔
اسلام آباد میں ملکی وزرات خارجہ نے کہا ہے کہ اس نے ان قریب 300 بھارتی سکھ یاتریوں کو ویزے بروقت جاری کر دیے تھے لیکن نئی دہلی حکومت نے حسب روایت سکھ مذہبی تقریبات میں شرکت کے لیے سفر کرنے والے ان شہریوں کو پاکستان میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق نئی دہلی حکومت کا یہ اقدام اس دوطرفہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے، جس کے تحت دونوں ہمسایہ ملکوں کے شہریوں کے لیے مذہبی بنیادوں پر سیاحت کے شعبے میں آسانیاں پیدا کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
دوسری طرف نئی دہلی میں بھارتی وزارت خارجہ نے ایسوسی ایٹڈ پریس کی طرف سے رابطے پر کہا کہ وہ اس بارے میں لاعلم ہے کہ آیا بھارتی سکھ یاتریوں کے کسی گروپ کو پاکستان جانے سے روک دیا گیا ہے۔
پاکستانی حکام کے مطابق بھارت نے اس سے پہلے بھی اسی سال بہت سے سکھ یاتریوں کو ایک دوسرے سکھ مذہبی تہوار کے موقع پر اسلام آباد کی طرف سے بروقت ویزے جاری کیے جانے کے باوجود پاکستان کا سفر کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ تب بھارتی حکام نے اپنے اس اقدام کو ’تکنیکی وجوہات‘ کا نتیجہ قرار دیا تھا۔
جنوبی ایشیا کے دو ہمسایہ لیکن دیرینہ حریف ممالک اور دو ایٹمی طاقتوں کے طور پر پاکستان اور بھارت کے درمیان شروع دن سے ہی کشیدگی پائی جاتی ہے، جس کی ایک بڑی وجہ کشمیر کا متنازعہ علاقہ بھی ہے۔ دونوں ملک اب تک آپس میں تین جنگیں بھی لڑ چکے ہیں۔
نئی دہلی کا الزام ہے کہ پاکستان بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی پسندی کی تحریک کی حمایت کرنے کے علاوہ سکھ علیحدگی پسندوں کی خالصتان تحریک کی بھی حمایت کرتا ہے۔ پاکستان اپنے خلاف ان بھارتی الزامات کی شروع سے ہی تردید کرتا آیا ہے۔