تحریر : محمد ریاض پرنس جمشید دستی مظفر گڑھ کے ایک گائوں چک مٹھن کے نہیایت ہی غریب اور سادہ لوح انسان سلطان محمود خاں دستی کے گھر 15 فروری 1978ء میں پیدا ہوئے۔ جمشید دستی کے والدین اپنے علاقہ کے نہایت ہی شریف لوگوں میں شامل ہوتے تھے۔ غریبوں، بے سہارا لوگوں کی خدمت کرنے کاجذبہ ان کا وطیرہ تھا۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ ان کے گھر سے کوئی خالی ہاتھ نہ جائے۔ اگر کوئی سوالی رات کوبھی آواز لگاتا تو ا س کی جو ممکن ہو سکی مدد کی جاتی۔ جمشید دستی دن بدن بڑا ہوتا گیا اس کے اندر بھی اپنے والدین والا جذبہ موجود تھا۔وہ نہ رات دیکھتا نہ دن ہر وقت لوگوں کے ساتھ گھل مل کر رہتا ۔اپنے علاقہ کے لوگوں کے کاموں کے لئے ہر وقت تیار رہتا ، ان کی فصلیں کاٹنے کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیتا۔
گلیوں میں بازاروں میںاگر کسی غریب کو دیکھتا تو اس کی خدمت کرتا، اگر کسی مزدور کو دیکھتا تو اس کے کام میں حصہ ڈالتا ،اگر کسی مانگنے والے کو دیکھتا تو اس کی مدد کرتا،اگر کسی یتیم کو دیکھتا تو اس کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھتا، اگر کسی جوتے پالش کرنے والے کو دیکھتا تو اس کے ساتھ مل اس کے جوتے پالش کرتا تاکہ اس کی آمدنی میں اضافہ ہو سکے۔ خدمت خلق کا جذبہ اس کے اندر کوٹ کوٹ بھرا ہوا تھا۔ وہ کبھی بھی کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا کہ اس نے کسی کی مدد نہ کی ہو۔
یہ ہے جمشید دستی جس نے اپنے علاقہ کو ان کا حق دلوانے کے لئے جدجہد کی اور اس کا نتیجہ آپ سب دیکھ ہی رہے ہیں۔اسی جذبہ سے وہ اپنے علاقہ کی عوام کی خدمت کرتا رہا۔ اس کو نہیں پتہ تھا کہ ایک دن وہ اپنے علاقے میں وہ نام کما لے گا جس کے لئے لوگ اپنا ایمان ،اپنا گھر بار،اپنے والدین قربان کردیتے ہیں مگر پھر بھی ان کو وہ مقام اور عزت نہیں ملتی جس کی ان کو خواہش ہوتی ہے۔ عوام سے سچی لگن اور ان کی بے لوث خدمت نے جمشید دستی کو وہ عزت اور شہرت دی جس کے لئے وہ اپنے علاقہ کی عوام کا مقروض ہو گیا۔اور علاقہ میں اپنے مخالفین کی نیندیں حرام کرتے ہوئے حلقہ NA178اور NA177میں قومی اسمبلی کا ممبر منتخب ہو گیا۔ ان کا قومی ممبر منتخب ہونا ان کے مخالفین کو نہ بھاسکا جس کی وجہ سے مخالفین نے اس کے علاقہ کی عوام کے لئے خد ا کی زمین تنگ کر دی اور ہر روز عوام پر ظلم وزیادتی کے پہاڑ ڈھیے جانے لگے ۔ جمشید دستی ایک محب وطن پاکستانی تھا اس سے یہ سب کچھ برداشت نہ ہوتا ۔ اس نے جس حد تک ہو سکا اپنے مخالفین کا سامنہ کیا اور اپنے علاقہ کی عوام کو انصاف دلوانے کے لئے سرگرم رہا۔
مظفر گڑھ کے علاقہ میں ابھی انسانوں کو جانوروں کی طرح کاٹا جاتا ہے ۔ جاگیردانہ نظام غریب عوام کے لئے وبال جان بنا ہوا۔ حکومتی پشت پنائی میں یہ خون کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ حکومتی نمائندوں نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں ۔ لوگ انصاف کے لئے بلک بلک کر مر رہے ہیں۔
اس کی ایک زندہ مثال ہمارے سامنے ہے جمشید دستی کی تو اپنی ذاتی کوئی زمین نہیں جس کو وہ پانی سراب کرتا۔ اس نے تو غریبوں کی فصلوں کو پانی سراب کرنے کے لئے یہ سب کچھ کیا ۔ اور جو وڈیرے جاگیردار پانی پر سالوں سے قابض ہیں ان کو کوئی سزا نہیں اور جس نے ان کے خلاف آواز بلند کی اس کو سلاخوں کے پیچھے بند کردینا کہاں کا انصاف ہے ۔ جمشید دستی کیا قصور ہے کہ اس کو سانپوں اور بچھیوں سے ڈرایا جا رہا ۔ اس نے کون سا ایسا جرم کردیا جس کی اس کو سزا دی جارہی ۔اس نے کون سا ایسا قتل کردیا ہے جو مخالفین کو ہضم نہیں ہو رہا اگر انسانیت کی مدد کرنا جرم ہے تو ہم سب یہ جرم کرنے کے لئے تیار ہیں ۔ ہمارے ملک کے اندر کالا قانوں راج ہو چکا ہے ۔ قاتل دنددناتے پھر رہے ہیں۔ملک کو لوٹنے والے سر عام پھر رہے ہیںان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ اور بے قصور عوام کی خدمت کرنے والے لوگوں کو جیلوں میں بند کیا جارہا ہے۔ کیا یہ ہے ہمارا پاکستان ۔جمشید دستی کو اس قدر سزا دی جارہے کہ جیسے اس نے ملک کا سودہ کر دیا ہو اور جو ملک کا سودہ کر رہے ہیں ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ۔خدارا ہمارے ملک کی عوام پر رحم کیجئے اور عوام کو جینے دیں ۔زمینی خدا بننے کی بجائے عوام کے تحفظ کے لئے کچھ کریں۔
مخالفین جس طرح جمشید دستی پر ظلم کا پہاڑ گرا رہے ہیں کل کو یہ دن ان کو بھی دیکھنے پڑ سکتے ۔اگر عوام کی خدمت کرنے سے یہ ظلم ملتا ہے تو آج پاکستان کا ہر نوجوان یہ ظلم برداشت کرنے کے لئے تیار ہے۔ میں تو یہی کہوں گا کہ ظالموں اپنا قبلہ درست کرلو،ورنہ ہر گھر سے جمشید دستی نکلے گا اور آپ کی گنگا کو بہا کر لے جائیگا۔میں جمشید دستی ہوںملک کا ہر نوجوان جمشید دستی ہے ۔ہر بوڑھا جمشید دستی ہے۔ جمشید دستی پر جتنا ظلم ڈھا سکتے ہوڈھا لو،مگر اس کے اندر سے انسانیت کی خدمت کا جذبہ نہیں نکل سکے گا۔ آج سول سوسائٹی پر زور احتجاج کر رہی کہ اس ظم و زیادتی کو بند کیا جائے ۔ اگر یہ ظلم نہ رکا تو آج تو صرف اس ظلم کے خلاف ریلیاں نکل رہی ہیں ۔کل کو سارا پاکستان بند ہو سکتا ہے جس سے ملک کا سارا نظام رک سکتا ہے ۔ موجودہ حکومت اس مسلئے کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کرے ۔اور جمشید دستی کو باعزت رہا کیا جائے۔
ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو طلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے