تحریر : چوہدری ذوالقرنین ہندل دی کنٹریکٹر نے منظر عام پر آتے ہی پاکستانی اداروں اور حکمرانوں کو کنٹریکٹر ثابت کردیا اور ایسے کنٹریکٹر جو اپنے آقا امریکہ سے خوف و ہراس کی وجہ سے ایک وطن کے اعلی عہدیداران ہو کر بھی کنٹریکٹر کا کام کرتے رہے۔’دی کنٹریکٹر’ ایک کتاب کا نام ہے جو سابق امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس نے اپنی آپ بیتی پر لکھی مگر اس آپ بیتی نے پاکستانی سربراہوں کے پول بھی کھول دیئے۔جہاں حکومتی بے بسی کے پول کھولے وہیں عوام کے دلوں میں افسردگی و سوالات بھی چھوڑے۔اور امید کرتے ہیں ہمارے ادارے اور نمائندگان وضاحت ضرور پیش کریں گے۔2011 کا یہ باب پھر سے کھل کر سامنے آگیا اور اس بار کچھ زیادہ ہی کھل کر سامنے آگیا۔ایک بار پھر محب وطن پاکستانی عوام سوالات کے بوجھ تلے دب چکی ہے۔
عوام کے دلوں میں طرح طرح کے سوالات گردش کرنے لگے ہیں۔عوام کے دلوں میں ملال ہے کہ وہ اپنی محنت اور کوشش سے اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپنی محنت کی کمائی سے کچھ رقم ٹیکس کی صورت میں دیتے ہیں تا کہ انہیں تحفظ اور انصاف جیسی سہولتیں ملیں۔مگر افسوس کے قوم کا ہر فرد بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔مگر کیوں؟کیا ہم ان قرضوں کے بغیر ترقی نہیں کر سکتے؟آخر ہمیں خودمختاری کب نصیب ہوگی؟پاکستان تو ایک خودمختار ریاست کے طور پر معرض وجود میں آیا تھا آخر خودمختاری کہاں کھوگئی؟آیا ہماری خود مختاری ڈالرز کے عوض بک چکی ہے؟اربوں ڈالرز کے عوض اپنی خودمختاری بیچ کر بھی تعلیم صحت اور غربت میں فرق نہیں تو پھر ایسا کیوں ہے؟آیا ہمیں اپنی بدولت خودمختار ملک بن کر سوکھی روٹی بہتر نہیں؟یہ سوالات برسوں سے چلے آرہے ہیں اور ہماری خودمختاری کا جنازہ نکالنے کے لئے کافی ہیں۔
اربوں ڈالرز کا قرض ہماری حکومتیں اور ادارے بٹور رہے کیا؟بحیثیت قوم ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ریمنڈ ڈیوس کے انکشافات غیرت مند قوم کے لئے آگ کے گولوں سے کم نہیں ہماری خودمختاری کی کرچیاں کرچیاں بکھری پڑی ہیں اس کتاب کے انکشافات میں۔افسوس کے کسی نمائندے کی طرف سے اس کی وضاحت بھی پیش نہیں کی گئی۔قارئین آپ کو بتاتے ہیں کیا انکشافات کئے ہیں ریمنڈ ڈیوس نے،اس کا کہنا ہے کہ اس نے دس گولیاں دو پاکستانیوں کے سینوں میں اپنے خطرے کی صورت میں سرعام لاہور شہر میں اتار دیں۔اس کے بعد اسے حراست میں لے لیا گیا جیسے ہی یہ معاملہ امریکہ تک پہنچا تو پاک امریکہ تعلقات میں کشیدگی ہوگئی۔اس نے کہا کہ اس کی رہائی کے لئے امریکہ نے کوششیں شروع کردیں اور پاکستان اور اسکے اداروں پر دبائو ڈالنا شروع کر دیا۔ اسی ضمن میں جان کیری نے نواز شریف سے ملاقات کی نواز شریف نے بازیابی کی یقین دہانی کرائی مزید بتایا کہ اس کی رہائی کے لئے جنرل پاشا نواز شریف اور صدر آصف زرداری متفق تھے۔
حسین حقانی نے بھی بڑا کردار ادا کیا ۔ان سب نے امریکی سفارتکاروں کے ساتھ مل کر رہائی کی پلاننگ کی۔تاہم دیت کے تحط معاملات نمٹانے کے لئے کوشش شروع کر دی گئی مگر لواحقین ماننے کو تیار نہیں تھے اسی لئے لواحقین کو ڈرایا دھمکایا گیا اور اس میں آئی ایس آئی اہلکاروں نے بھی مدد کی۔مزید کتاب میں لکھا کہ سب سے زیادہ مدد اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا نے کی۔انہوں نے پیشی کے دوران احاطہ عدالت میں رہ کر امریکی سفیر کیمرون منٹر کو میسجز کے زریعے عدالتی کاروائی کے بارے آگاہ بھی کیا۔قارئین یوں ایک لاکھ تیس ہزار ڈالرز کا خون بہا زبردستی لواحقین کو تھما کر ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا حکم لکھ ڈالا۔یہاں بھی عوام کے دل میں سوال اٹھتا ہے کہ ،کیا عدالت کو علم نہیں تھا کہ لواحقین پر دبائو ڈالا گیا ہے؟۔یقینی علم ہوگا۔مگر افسوس کے قرآن واسلام کا حلف اٹھانے والے یہ عادل بھی خوف اور طاقت کے سامنے بے بس نظر آئے اور انصاف کی دجھیاں اڑادیں۔مجھے یقین ہے کہ کوئی بھی وضاحت نہیں دے گا۔مگر عوام جاننا چاہتی ہے کہ کتاب میں سب حقیقت ہے کیا؟اگر نہیں تو وضاحت پیش کریں۔
شاہ محمود وہ واحد شخصیت ہیں جو امریکہ کے سامنے دیوار بنے اسکی گواہی ڈیوس کی کتاب بھی دیتی ہے۔دنیا کی نمبر ایک انٹیلی جنس آئی ایس آئی کے لمحہ فکریہ ہے انہیں از سر نو تحقیقات کرنی چاہئے اور ذمہ داران کو سزا دینی چاہئے تاکہ ملکی خود مختاری اور سلامتی کو یوں رسوا کرنے کی رسم تھم جائے۔عوام کی طرف سے منطق پیش کی جا رہی ہے کہ پاکستان ڈاکٹر عافیہ کو بازیاب کروا سکتا تھا مگر ڈیوس کی مدد کی ہر ممکنہ کوشش کی گئی اور عافیہ کی رہائی کا مطالبہ کرنے کی ہمت ہی نہیں کی۔واقعی بھکاریوں کی کوئی عزت نہیں۔بڑی بات، جب بات عزت نفس تک پہنچ جائے تو تعلق کو ٹھوکر مار دینی چاہئے عزت کا دفاع سب سے ضروری ہے تعلق بنتے رہتے ہیں۔دی کنٹریکٹر کا خلاصہ پڑھ کر اپنی حیثیت کا باخوبی اندازہہوگیا ہے پاکستانی عوام کو ، التجا ہے موجودہ آرمی چیف صاحب سے کہ ذمہ داران کو کٹہرے میں لایا جائے اور ملکی خودمختاری کو بحال کیا جائے عوام خودمختاری کی بحالی کے لئے تیار ہے۔چاہے اس کے عوض ہمیں پابندیاں ہی کیوں نہ برداشت کرنی پڑیں۔
سر شرم سے جھک گیا وطن کا حاکم ہی بھک گیا وطن کا محافظ بھی ظالم بنا وطن کا ب بس نکلا عادل بھی وطن کا