تحریر: سید انور محمود امریکا کی جنگ آزادی جسے امریکی انقلابی جنگ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے، سنہ 1765 سے 1783 کے درمیان لڑی گئی جو امریکا میں برطانوی تسلط کے خلاف تھی۔ اس جنگ میں امریکیوں نے برطانویوں کو شکست دے کر اپنے ملک سے نکال دیا اور اس کے بعد متحدہ ریاست ہائے امریکا کا وجود عمل میں آیا۔امریکا کے تمام نوآبادکاروں کا مذہب بھی وہی تھا جو برطانوی حکمرانوں کا تھا۔ یہ سب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ تھےلیکن برطانیہ سے آزادی چاہتے تھے۔آزادی کے متوالے حکومت برطانیہ کے رعایا تھے اور اسی نسل سے تعلق رکھتے تھے جس سے حکمرانوں کا تعلق تھا۔4 جولائی 1776 کو آزادی کے متوالے ملک کے کونے کونے سے فلاڈلفیا کے مقام پر جمع ہوئے اور کانگریس کے آئینی کنونشن میں شامل ہوکر اعلان خود مختاری پر دستخط کئے۔آزادی کے ان متوالوں کی کل تعداد 56 تھی جنہوں نے اعلان خود مختاری پر دستخط کئے تھے۔ یہ نہایت آسودہ حال اور خوش حال لوگ تھے۔ ان سب انقلابیوں نے اعلان آزادی پر یہ جانتے ہوئے بھی دستخط کئے کہ اس کی سزا انہیں گرفتاری اور موت کی شکل میں ملے گی۔ اور ایسا ہی ہوا،جس کی صرف ایک مثال یہ ہے کہ ان میں سے ایک رہنما ناتھن ھیل کو جاسوسی کے الزام میں22 ستمبر 1776 کو برطانوی افواج نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ مرنے سے پہلے اس کی زبان سے یہ تاریخی الفاظ ادا ہوئے تھےکہ ’’مجھے افسوس ہے کہ وطن کو دینے کے لئے میرے پاس صرف ایک زندگی ہے‘‘۔
اپنے ملک کی آزادی و خودمختاری کے لیے انقلابی قائدین اپنی منزل کی طرف ثابت قدمی سے بڑھتے رہے اور آج اعلان خود مختاری کے241 سال بعد ترقی و تعمیر کی تمام منزلیں طے کرکے امریکا دنیا کی سپر طاقت بن چکا ہے اور تاج برطانیہ کے کئے گئے مظالم کا بدلہ مسلم دنیا سے لے رہا ہے۔ نریندر مودی کے دوروزہ امریکی دورئے سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے کشمیری حریت پسند رہنما سید صلاح الدین کو عالمی دہشتگرد قرار دیدیا، تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا صلاح الدین کو عالمی دہشتگرد قرار دینا دراصل نریندر مودی کو خوش کرنا ہے۔ ورنہ یہ ناممکن ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک حریت پسند اور دہشتگرد میں میں فرق کو نہ جانتا ہو۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے نظریات ایک جیسے ہیں،ٹرمپ اور مودی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، دونوں کھلے مسلم دشمن ہیں لیکن دونوں یہ یاد رکھیں کہ ایک حریت پسند کےلیے موت بہت حقیر چیزہوتی ہے۔ سید صلاح الدین مقبوضہ کشمیر کے ایسے ہی حریت پسند ہیں جیسے وہ 56 امریکی انقلابی قائدین تھے جنہوں نے غاصب برطانیہ سے آزادی کےلئے اعلان خودمختاری پر دستخط کئے تھے۔ سید صلاح الدین بھی یہ ہی کررہے ہیں اور وہ غاصب بھارت سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہدکررہے، یہاں فرق یہ ہے کہ آزادی کی خواہش کرنے والے مسلمان ہیں اور غاصب ہندو ہیں۔کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں سید صلاح الدین کےعلاوہ اور بھی بہت سے دوسرئے حریت پسند رہنما کشمیر کو بھارت کے تسلط سے آزاد کرانے کی جدوجہد کررہے ہیں۔ اگر آج پاکستان سید صلاح الدین کے بارئےمیں امریکی فیصلے کو تسلیم کرتا ہے تو وہ دن دور نہیں جب امریکی حکومت باقی تمام حریت پسند رہنماوں کو بھی دہشتگرد قرار دئے دئے گی۔
پاکستانی دفتر خارجہ نے حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر اور متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین پر امریکی پابندی کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر کے حریت پسندوں کو دہشتگر د قرار دینا منظور نہیں۔ترجمان کے مطابق تحریک آزادی کو دہشتگردی سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی، کشمیریوں کے حق خودارادیت کے حامی کو دہشتگرد قرار دینا ناقابل قبول ہے،کشمیری گذشتہ 70 سال سے آزادی کی جدوجہد کررہے ہیں۔ وزیر داخلہ چوہدری نثارکا کہنا تھا کہ امریکا بھارت کی زبان بول رہاہے، ہم کشمیری بھائیوں کی حمایت جاری رکھیں گے۔ بعد میں پاکستان نے ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندرمودی کی ملاقات کے بعد جاری ہونے والےمشترکہ اعلامیہ کو بھی مسترد کردیا ہے۔اعلامیہ میں امریکا اور بھارت نے پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین دہشتگردی کے لئے استعمال نہ ہونے دیں جبکہ پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ جو دہشتگردی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کررہے ہیں وہ خود ہی پاکستان میں دہشتگردی کو ہوا دینے کے ذمہ دار ہیں۔
پاکستان کے ساتھ امریکہ اور بھارت کی حکومتوں کے رویوں سے پاکستان عوام اچھی طرح واقف ہیں، بھارت تو خود ایک دہشتگرد اور غاصب ملک ہے جس کا ثبوت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 70 سال پہلے کی منظور کردہ وہ قراردادیں ہیں جن کے مطابق جموں و کشمیر میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کرایا جانا ہے۔ بھارتی حکمران رائے شماری کرانے پر آمادہ نہیں۔ اسی وجہ سے جموں و کشمیر میں بھارتی فوجی قبضے کے خلاف جدوجہد چل رہی ہے اور غاصب بھارتی افواج نہتے کشمیروں پر روزانہ گولیاں برساتی ہے، اس سے بڑی اور دہشتگردی کیا ہوگی۔ لیکن بھارت اس جائز آزادی کی تحریک کو بھی دہشتگردی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ امریکہ جو اپنے آپ کو انسانی حقوق کا چیمپین کہتا ہے آزادی کے ایک متوالےسید صلاح الدین کو دہشگرد قرار دیتا ہے اور پاکستان سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ دہشتگردی کو روکے، شاید اس سے بڑی کوئی منافقت نہیں ہوسکتی ، اگر آج سید صلاح الدین ایک دہشتگرد ہیں اور کشمیر کی آزادی کی جدوجہد دہشتگردی ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’کیا سنہ 1765 سے 1783 کی امریکا کی جنگ آزادی ایک دہشتگردی تھی اور وہ 56 آزادی کے متوالے دہشتگرد تھے جنہوں نے اعلان خود مختاری پر دستخط، یقیناً نہیں! بلکل اس ہی طرح نہ سید صلاح الدین ایک دہشتگرد ہیں اور نہ ہی کشمیر کی آزادی کی جدوجہد دہشتگردی ہے۔
سید صلاح الدین کو دہشتگرد اور کشمیریوں کی جدوجہد کو دہشتگردی قرار دینے کے بعد امریکہ نے کشمیروں کو بھی اپنا دشمن بنالیا ہے، کشمیر میں اب امریکہ مردہ باد کے نعرئے بھی روز سنائی دینگے اور بھارتی پرچم کے ساتھ امریکی پرچم بھی جلائے جایں گے۔ امریکہ اور بھارت کا مشترکہ اعلامیہ دراصل ہمارئے ملک کی ناقص خارجہ پالیسی کا نتیجہ ہے، وزیر خارجہ کا قلمدان وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے جو خارجہ امور سے تقریباً ناواقف ہیں، انکے نزدیک بہترین خارجہ پالیسی یہ ہے کہ سعودی عرب کے بادشاہ سے ذاتی تعلقات بنالیے، ترکی کے صدر کے ساتھ فیملی تعلقات بنالیے یا پھر بھارتی وزیر اعظم کو آم اور انکی والدہ کو کپڑئے بھجوادیے یہ ہی ایک اچھی خارجہ پالیسی ہے ۔ اگر پاکستان میں کوئی قابل وزیر خارجہ ہوتا تو وہ مودی کے امریکہ پہنچنے سے پہلے امریکہ میں پاکستانی لابی کو متحرک کرتا جو پاکستان کے لیے کام کرتی۔ لیکن افسوس نواز شریف حکومت کو کسی وزیر خارجہ کی ضرورت نہیں ہے۔
گذشتہ چار سال سے نواز شریف حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ اگر زیادہ ضرورت پڑ جائے تو وزیر داخلہ چوہدری نثار جو داخلہ امور سے بھی کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ان سے خارجہ پالیسی پربیان دلوا دیا جائے، جیسا کہ ابھی حال ہی میں امریکہ کی جانب سے سید صلاح الدین کو دہشتگرد قرار دینے کے بعد ہوا۔ واشنگٹن اعلامیہ کے پانچ دن بعد وزیراعظم نے وزارت خارجہ سے بریفنگ لی ، تب وزیراعظم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’امریکا۔بھارت مشترکہ اعلامیہ میں مقبوضہ وادی میں بےگناہ کشمیریوں کے خلاف بھارتی سیکورٹی فورسز کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم پر مکمل خاموشی سے انہیں مایوسی ہوئی ہے‘‘۔ امریکا۔بھارت مشترکہ اعلامیہ کے بارئے میں وزیر اعظم کا یہ بیان جوچند گھنٹوں میں آجانا چاہیے تھا اس کو پانچ دن لگے، افسوس وزیراعظم نواز شریف نے خارجہ پالیسی کو ایک کھیل بنارکھا ہے۔