تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری ٹھگوں کا ایک ٹولہ ایک بادشاہ کے دربار میں پہنچا اسے آپ آجکل کا جمہوری آمر ڈکٹیٹر ،فوجی آمر صدر یا وزیر اعظم ہی سمجھ لیویں جس کی آنکھیں کرپشن کے حمام میں نہا نہا کر چندھیا گئی ہوں اس ٹولے نے کہا ہم آپ کے لیے ایک ایسا لباس تیار کردیتے ہیں جو آپ کو تو بالکل نظر نہیں آئے گا مگر آپ کے درباریوں ،وزراء ،مشیر حضرات کو نظر آئے گا۔ٹھگوں نے باشاہ کو اس طرح اپنی چکنی چپڑی باتوں سے ورغلایاکہ اس نے ایسا لباس تیار کرنے کا حکم دے ڈالا۔ انہیں ہمہ قسم سہولتیں مہیا کی گئیں دو ماہ بعد پوچھا کہ لباس تیار ہو گیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ کوئی معمولی لباس نہیں کئی ضروری اشیاء بہت مہنگی اور بیرون ملک سے منگوانا پڑیں گی وہ بھاری رقوم اینٹھتے رہے چھ ماہ بعد لباس تیار کرکے بادشاہ کوکھلے دربار میں پہنانا شروع کیا اس کے سارے کپڑے اتار ڈالے اور ویسے ہی جھوٹ موٹ کبھی اس کے کندھوں کو سہلاتے کبھی آگے پیچھے ہاتھ مارتے کبھی شلوار باندھنے کی ایکٹنگ کرتے غرضیکہ بادشاہ الف ننگا کھڑا تھا انہوں نے باشاہ سے پوچھا آپ کو تو لباس نظر نہیں آتا ہوگا مگربقیہ سبھی لوگوں کو نظر آتا ہے بادشاہ نے موجود افراد سے پوچھا کہ کیسا اعلیٰ لباس ہے تو سبھی نے لباس کی تعریفیں شروع کردیں مصاحبین یا وزراء میں سے کوئی بھی کیسے کہہ سکتا تھا کہ بادشاہ سلامت آپ تو ننگے ہیں یہی حالت ہمارے محترم وزیر اعظم صاحب کی ہے کوئی مصاحب انہیں یہ بات کہنے کو تیار نہیں کہ جناب والا !سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کے سامنے آپ کی اپنی آپ کے بچوں آپ کے داماد اور آپ کی بیٹی کی پیشیوں سے کوئی عزت افزائی نہیں ہورہی بلکہ اس طرح آپ اور آپ کا پورا خاندان پبلک میں ننگا کرڈالا گیا ہے۔
جب سے پانامہ لیکس کا معاملہ شروع ہوا ہے روزانہ آپ کے گندے کپڑے اتار کر سرِ بازار دھوئے جاتے ہیں اور آپ اور آپکے مصاحبین اسے جمہوریت اور جمہوریت کا حسن قرار دیتے نہیں تھکتے ۔اب بھی غیرت و حمیت کا تقاضا صرف یہ ہے کہ اپنی بیٹی کو کسی کمیٹی کے سامنے پیش مت کرو اور بچی کچھی عزت بچانے کے لیے ایسی وزارت عظمیٰ کو لات دے مارو کہ” بھاڑ میں جائے وہ سونا جو کانوں کو کھائے” کہ اسطرح ایسی روز روز کی بے عزتی سے تو وزارت عظمیٰ کی حیثیت زیادہ نہ ہے کسی کو بھی نامزد کرکے اپنا وزیر اعظم منتخب کروانے میں آپ کا کیا نقصان ہے۔
یہ آپ کے ہی کسی تابعدار کارکن کو ملے گی اور روز روز کا بے عزت ہونے کا بازار بند ہو جائے گا ایک پنتھ دوکاج کی طرح اپوزیشن کو بھی سکون آجائے گا۔وگرنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اقتداری رسی مکمل ہی ہاتھ سے پھسل جائے اور لینے کے دینے پڑجائیں آخر جیلیں اور وہاں جمشید دستی جیسی انہونی بھی تو ملزمان کے ہی حصہ میں آیا کرتی ہے آپ اپنی انا کی قربانی دیکر پورے خاندان کی بگڑتی عزت کوبچا سکتے ہیںوگرنہ خدا نخواستہ سب طرف ہی “چور ،چور ” کی آواز گونج گئی تو پھر اس محاورہ کے موجب ہوجائے گا۔
“If wealth is lost nothing is lost ,if health is lost something is lost ,if character is lost everything is lost”
کہیں وزارت عظمیٰ بچاتے بچاتے جیل یاترا ہی نہ کرنی پڑ جائے پھر تو” اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی”مگر یہ پارٹ آف گیم ہوگا آخر بھٹو کو بھی ضیاء الحق کی مونچھوں کے تسمے بنانے کی بڑھکیں لگاتے ہوئے تختہ دار کو چومنا پڑ گیا تھا۔ہماری ہندوستان کی سات سو سالہ بادشاہت کے ادوار میں توسگے بھائیوں نے اس اقتدار کے لیے ایک دوسرے کو قتل کرڈالا والد تک کو قید میں ڈال دیا اقتدار بحرحال کانٹوں کا سیج ہے مگر عزت سے کوئی چیز پیاری نہیں ہوتی میں آپ کو آپ کے مخلص بڑے بھائی کی حیثیت سے ہی مشورہ دے رہا ہوں کہ اس کہانی کا اختتام کرڈالو اور اگر واقعی سرمایہ کے لالچ میں ملکی خزانہ سے یا اپنی جائز کمائیوں کا ہی روپیہ باہر کسی عجوبہ طریقہ سے بھجواڈالا تھا تو وہ سارا سرمایہ پاکستان میں واپس لے آئو تو اسے آپ کی سر عام معافی ہی سمجھ لیا جاسکتا ہے پھر قوم آپ کو محب وطن ہونے اور بین الاقوامی سامراج کے کہنے کے باوجود ایٹمی دھماکہ کرکے ملک کو ناقابل تسخیر بنا ڈالنے جیسے کارنامہ کی وجہ سے معاف بھی کرسکتی ہے۔کہ انسان خطا کا پتلا ہے اور نبیوں کے علاوہ کوئی گناہوں سے پاک نہیں۔ وگرنہ پھر بیورو کریسی تو کسی کی ہوئی ہے نہ ہوسکتی ہے جو افسر آپ کے حکم سے ڈرتے ہوئے کانپتے ہیں وہی آپ کو مجرم ٹھہرادیں گے ۔پھر”اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت” مصاحبین اور وزراء وغیرہ تو آپ کے ہر ایکشن پر نعرہ زن ہی رہیں گے تاریخ بتاتی ہے کہ بادشاہ دربار میں الف ننگا کھڑا تھا ور کسی مصاحب وزیر مشیر کو اسے ننگا کہنے کی جرأت نہ ہوئی تھی۔