تحریر : انجینئر افتخار چودھری اور سب سے سچی خبر آج نوید افتخار نے دے ہی دی۔ابو جی ماسٹر تاج عباسی صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ ہم سب اللہ کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔اندھیری رات میں جب کوئی نظر نہیں آتا تو ایسے میں ایک جگنو بھی سورج ہوتا ہے جس کی چمک آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو قرار دیتی ہے۔اور وہ تو ایک سورج تھے۔بھاڑ میں جائے یہ برادری ازم جس نے آدم و حوا کی اولاد کو تقسیم در تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔ان جیسے روشن ستاروں نے اس جہالت کو پائوں تلے دبائے رکھا اور ہم نلہ کے گجر آج اس بات کا تہیہ کرتے ہیں کہ دل سے دور نہ ہوں گے۔
ملک تاج عباسی کا تعلق ہری پور کی دور افتادہ یونین کونسل جبری سے تھا یہ لورہ روڈ پر شاہ مقصود سے کچھ فاصلے پر واقع ہے۔ سابق ای ڈی او تھے استاد تھے جبری اسکول میں پڑھاتے رہے۔ہم نلہ والوں سے بڑے تعلق رہے سیاسی مخاصمت اپنی جگہ مگر جو رواداری اور پیار آپس میں رہا وہ یادگار ہے گا۔میرے چچا مرحوم جو میرے سسر تھے ان کے گہرے دوست تھے۔چند ماہ پیشتر ان کی صحت دریافت کرنے دوستوں کے ساتھ جبری گیا تھا۔ضعیف العمری میں بھی شفقت میں کمی نہ آنے دی۔اس سے پہلے چودھری منظور لسن والے جو میرے کزن ہیں کی وفات پر ملے اس وقت صحت اچھی تھی بڑے خوش ہوئے اور بڑے پیار سے حال احوال دریافت کیا انہیں خوشی ہوتی تھی خاص طور پر کسی ٹاک شو میں جبری نلہ کی محرومیوں کی بات کرتا تو انہیں یہ چیزیں اچھی لگتیں۔کہنے لگے ہم لوگوں نے بہت جد وجہد کی مگر پہاڑ کی مجبوریاں پہاڑ سے بھی بلند تھیں جسے نے ہری پور والے دور کر سکے اور نہ ہی خانپور والے۔سچی بات تو یہ ہے کہ اپر خانپور کی چار یونین کونسلوں کی بد قسمتی کی داستان اتنی طویل ہے کہ ان کی موت پر لکھے اس کالم میں بات کرنا اچھا نہیں لگے گا۔
آج ان کا جنازہ چار بجے ہے لوگ دیکھ لیں گے کہ ہریپور شہر اور اور اس کے مضافات میں اندھیرا اجالا ہے۔یہاں اور توا ور بجلی چالیس وولٹ سے زیادہ نہیں ہوتی لوگ موبائل چارج کرانے ہری پور جاتے ہیں۔ایک عظیم شخص یہی کچھ کہتا اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔پچھلی بارملنے گیا تو دل کے دکھڑے بیان کئے۔اس بار عید پر نہ جا سکا سوچا عامر میر افضل کی شادی پر جا کر ملوں گا لیکن زندگی نے وفا نہ کی۔
مجھے ان لوگوں سے پیار ہے جو تحریک پاکستان کے وقت ہوش و حواس میں تھے۔میں نے آزادی سے پہلے کی باتیں چھیڑیں۔میرا اس لحاظ سے بھی تعلق تھا کہ میں جب اپنے ننھیال جایا کرتا تو بچپن میں ان کی مہمان نوازی کا لطف اٹھاتے کنگڑالہ سے ایک راستہ جبری گائوں کے اندر سے گزرتا ہے یہاں سے نلی والے راستے سے جنگلاں کی بن والا راستہ مختصر تھا ان کے گھر اسی راستے پر تھے۔مہمان نوازی ملکوں پر ختم ہے اور مجھے پچاس سال سے بار بار ان کے ہاں جانے کا موقع ملا۔ وہ میرے نانا جان کی باتیں بھی بتایا کرتے جو اپنے علاقے کے ایک نامور فرد تھے۔
تحریک پاکستان کی بات چھیڑی تو کہنے لگے آزادی کی نعمت نے ہمیں انتہائی غربت اور پستی سے باہر نکالا۔انہوں نے لسن میں موجود ایک کھتری کی کہانی بھی سنائی جو اس پورے علاقے کا ساہو کار تھا۔انہوں نے جبری اسکول میں ایک مدت بچوں کو تعلیم دلائی ۔آج ہی مریم اورنگ زیب کا بیان پڑھا کہ اسکول میں کوئی ایک کمرہ ہی دکھا دیں میرا جی چاہتا تھا کہ انہیں جبری لے چلوں اور دکھائوں کہ کیا تبدیل ہوا ہے اور اس دوران ماسٹر تاج صاحب بھی یاد آ ئے۔اللہ انہیں غریق رحمت کرے آمین لوگ الیکشن لڑتے ہیں ایک دوسرے کے جانی دشمن بن جاتے ہیں نلہ کے گجروں اور جبری کے عباسیوں کا مدتوں مقابلہ رہا۔کبھی ہم جیتے اور کبھی وہ لیکن ایک چیز ہمیشہ جیتتی رہی وہ پیار اور محبت تھی۔آج ان کی موت سے ایک صف ماتم جبری میں بچھی ہے اور نلہ میں بلکہ مجھے کہنے دیجئے اپر خانپور اور پورے ہریپور میں سوگ کی فضا ہو گی۔جانا یقینا سب نے ہے کہ لیکن ملک عبدالرحمن اور محسن پہاڑ مختار گجرکے بعد ماسٹر تاج صاحب کا اس دنیا سے چلے جانا ایک عہد بہار کا جانا ہے۔اللہ رب العزت نے اس دنیا میں اچھے لوگ پیدا کئے ہیں ملک تاج عباسی صاحب ان میں سے ایک تھے۔کاش میرے پاس ان کے بچپن کی معلومات ہوتیں تو میں اپنے قارئین کو بتاتا لیکن اتنا مجھے علم ہے کہ انہوں نے لورہ اسکول سے تعلیم حاصل کی۔وہ اپنے زمانے کے معروف استاد تھے۔ان کے شاگردوں کی تعداد یقینا ہزاروں میں ہے۔ہمارے گھرانے کے کئی ایک افراد ان سے تعلیم پا چکے ہیں برادر ریاض احمد ان کی شاگردی میں رہ چکے ہیں وہ ہمیشہ ٹیچرز ڈے پر اور عید شب برائت پر ان کی خیریت دریافت کیا کرتے جس کا ماسٹر صاحب نے مجھ سے بھی تذکرہ کیا کہ ان کا فون آیا تھا۔
جبری نلہ اور لسن کے درمیان ایک ایسا گائوں تھا جو میری بچپن کی یادوں کا محور و مرکز رہا ہے۔سڑک نے فاصلے کم کیئے ہیں پیر سوہاوہ ٹاپ سے تقریبا چالیس کلو میٹر پر ہرو پل کے اس پار یہ خوبصورت گائو ں آج ایک خوبصورت شخص سے محروم ہو گیاہے۔لوگ کہا کرتے ہیں کہ ان کا خلاء کبھی نہیں پورا ہو گا۔دیکھیئے یہ قانون قدرت ہے ملک عبدالرحمن کا خلاء اگر تاج محمد عباسی نے پورا کر دیا ہے تو مجھے پورا یقین ہے کہ شیروں کی کچھار میں شیر ہی پیدا ہوں گے اور کوئی نہ کوئی ان کے قدم پر قدم رکھے گا۔میرے پیارے دوست حاجی چودھری شہباز حسین سابق وفاقی وزیر کہا کرتے ہیں تخت خالی رہا نہیں کرتے ۔مجھے دلی افسوس ہے کہ آج میرے والد صاحب اور چچا جان کا ایک انتہائی قریبی اور گہرے تعلق والا شخص زندہ نہیں رہا۔انہی کی طرح دراز قد شفیق بولے تو باتوں سے پھول جھاڑنے والے شخص تہہ خاک ہونے جا رہا ہے۔کہتے ہیں ایک بار چچا جان چودھر محمد شفیع اپنے عم زاد چودھری خوائیداد کا ووٹ ان کے حوالے کر آئے جس کے نتیجے میں ملک عبدالرحمن چیئرمین بن گئے۔یہ اعتماد بھائی کی جانب سے تھا اور ایک دوست کے ہاتھ میں اختیار دے آنا جو خود اس کے لئے نہیں اس کے بھائی کے لئے تھا۔
کہاں گئے وہ لوگ جن سے وفاقئں کے نگر آباد تھے۔ہار جیت زندگی کا ایک کھیل ہے اس بار ہم اکثریت سے جیتے پچھلی بار ملک تاج جیتے لیکن آج ایک ایسی طاقت نے انہیں شکست دی جو ہمیں بھی ہرائے گی وہ موت ہے۔میںن جب بھی لکھتا تھا ان جیسے شفیق بزرگوں کو نظر میں رکھ کر لکھتا ہوں اور جب بھی ٹی وی پر ہوتا ہوں سوچتا ہوں اور کوئی دیکھے نہ دیکھے کوئی تاج عباسی صاحب کا چاہنے والا دیکھے گا اور انہیں کہے گا کہ یہ افتخار کون ہے جو اپنے علاقے کی پسماندگی پر چلاتا ہے۔زندہ رہے تو لوگ دیکھیں گے مگر آج ایک چاہنے والا اس دنیا سے چلا گیا۔ایک محبت ہزارہ کے کسی کونے میں مر گئی۔ایسے چراغ ایسے جگنو کا اس دنیا سے جانا ایک اجتماعی نقصان سے کم نہیں۔کمال کے لوگ اس با کمال دنیا سے چلے گئے۔وادی ہرو کے پانیوں نے آج خوب رونا ہے۔
سمندر کے پانی سے جب نمک بنا تو اس سے کسی نے پوچھا کہ کیسے بنے ہو اس نے جواب دیا کسی اچھے مرنے والے کی یاد میں رونے والوں کے آنسوئوں سے جو بڑی دور سے آئے تھے اس سے بنا ہوں ۔شائد اس نمک میں ملک تاج جیسے لوگوں کی موت پر رونے والوں کے آنسوئوں کا نمک بنے گا اور کسی خاص موقع پر اپنی ذات کی خوبیوں کی چاشنی بن کر ہمارے معدوں کی بجائے دلوں میں اتریں گے۔کم کم لوگوں کو معلوم ہے کہ لوئر ہزارہ نے بڑے کام کے لوگ پیدا کیئے ہیں ۔ان میں جبری کے ملک تاج عباسی بھی تھے۔چچا جی کہا کرتے تھے کہ مرنے والوں کی بھی ایک محفل سجتی ہے اور نیک لوگوں کی روحیں جنت میں ملا کرتی ہیں اگر میرے تایا جان میرے پھوپھا میرے والد میرے چچا میرے ماموں وہاں ملیں تو تاج صاحب سلام ضرو رکہئے گا۔اسی چچا محمد شفیع کی بیٹی اور نواسے کے ساتھ جنازے پر آ رہا ہوں۔پچھلی بار باجی بھی ساتھ تھیں آج وہ کینیڈا میں ہیں لیکن ان کے بچے حاضری دیں گے اور ظاہر ہے شاگرد خاص بھائی ریاض بھی۔
فراز نے کیا خوب کہا تھا وداع یار کا منظر فراز یاد نہیں بس ایک ڈوبتا سورج میری نظر میں رہا