تحریر : شہزاد سلیم عباسی سیاسی ڈرامے بازی، پولیٹکل پوائنٹ اسکورننگ، اپوزیشن پردبائو بڑھانے کیلئے پرانی فائلوں کو کرید کر عدالتی سماعت کا حصہ بنوانا، ظلم و زیادتی، ناانصافی و بد امنی اورعوام کے ٹیکس پر چلنے والے اداروں پر ناجائز تسلط اور کئی سو ہزار فیصد تک ناجائز منافع خوری ، حقیقی سالمیت و ملکی وقار کو ایک طرف رکھ کر جعلی و ذاتی و جز و قتی ملکی تحفظ کا ڈھونڈ رچا نا اور قومی خزانہ خالی کر کے بیرون ملک اپنے آقائوں اور عقیدت مندوں کے پاس سارا پیسہ رکھ کر سود کھانا ہمارے حکمرانوں کا ہمیشہ سے شیوہ رہا ہے۔
چوری کے سارے پیسے بلیک منی سے وائٹ منی میں بدلنا تقریباََ ہر سول و ملٹری حکومتی دور کا اہم ترین حصہ اور ہمارے ملک کی شدید بدنامی کا باعث اورمسلسل زوال پذیری کی وجہ رہا ہے۔ ہر حاکم وقت زمامِ کار اورگھوڑے کی لگام کو اپنے ہاتھ میں رکھ کر ساری زندگی عیاشی اور بدمعاشی کے مزے لوٹناچاہتا ہے لیکن اسے کیا معلوم کہ دنیا ایک عبرتناک امتحان گاہ ہے جس میں رہتے ہوئے ہر انسان چاہے وہ ذات پات ، حسب و نسب اور جاہ و جلال کے اعتبار سے کم تر ہو یا شان و شوکت اور مال ودولت کے حساب سے رتبے اور شان والا ہو ، بالاخر نشان عبرت یا نشان فخر ضرور بنتا ہے۔حمود الرحمان کمیشن رپورٹ ، سانحہ سیالکوٹ کے دو بھائیوں مغیث اور منیب کے سرعام قتل کی کمیشن رپورٹ،شاہ زیب قتل کیس، ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ اور سانحہ ماڈل ٹائون رپورٹ وغیرہ چند ایسے شرمناک گناہ ہیں جن کے داغ کبھی مٹ نہیں سکتے۔
غیروں کے نقش قدم پر چلنااور ان کی آشیرباد سے حاصل شدہ ملک دشمن پالیسیوں کوجبراََ عوام پر ٹھونسنا ہماراوطیرہ ہے۔جس ملک کی سلامتی ، اقتصادی ترقی کے اعشاریے ، تعلیم و صحت کے زاویے، حال و مستقبل کے امکانات ، باہمی بین الاقوامی تعلقات، اداروں کے ٹارگٹس، بیور کریسی کی چھتریاں اور یہاں تک کہ سول وفوجی حکومت کے اعلی ترین عہدوں کے لیے موزوں افراد کے ناموں کی سلیکشن واشنگٹن ڈی سی سے ہو ، اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔عمران خان کے دھرنے سے لیکر پانامہ ایشو، جے آئی ٹی ، کل بھوشن یادیو،حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین، جمشید دستی ، ریمنڈڈیوس ، اسلامی فوجی اتحاد کا معاملہ، قطر تعلقات، مودی امریکہ ملاقات پر ہمارا سٹانس اور اب ریمنڈیوس کے کتاب The Contractor پر موجودہ حکومت کی پالیسی، حکمت عملی اور دور اندیشی بلکل زیرو اور مایوس کن ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے کے شروع کے دنوں میں ن لیگی چمچے کڑچھے اور لیگی شیر عمران خان کو کوس رہے تھے لیکن پھر کچھ دنوں بعد انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا، جب ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کوبہتر آپشن سمجھااور میاں نواز شریف نے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو بلا بھیجا اور زیادہ خطرہ سانحہ ماڈل ٹائون رپورٹ سے ہے، اس لیے تم اور رانا ثنا ء اللہ جیل جانے یا مستعفی ہونے کیلئے تیار ہو جائو۔ کچھ دنوں بعد عمران نے فوج کوبھی اپنے غصیلے انصافی تیور دیکھانے شروع کردیے جس سے فوج نے عمران کو ناکارہ پرزہ قرار دیکر نواز لیگ کو بخش دیا۔ موجودہ صورتحال میں ن لیگ کوئی نالائقی یعنی چور مچائے شور والی کہانی سنا کر سیاسی مظلوم بننے کی ڈرپوک سعی کرے گی اور زیادہ چانسز ہیںکامیاب بھی ہو جائی گی۔ ”سو چوہے کھا کر بلی حج کوچلی ”کے مصداق نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کا عوام کو احتساب کی دعوت دینااور پھراحتساب کے لیے” اللہ کے کافی ہونے کاکہنا ”نہ صرف سیاسی بونا ہونے کی کم ترمثال ہے بلکہ زبان زد عام محاورے” میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو” کی مانند ہے۔
ریمنڈڈیوس والے معاملے پر پیپلزپارٹی بیا ن بازی کررہی ہے وہ بالکل جھوٹ پر مبنی ہے ۔کیوں کہ قتل کے بعد تو دیت بنتی ہے لیکن دہشت گردی ایکٹ میں شریعة کے حکم کومس یوز نہیں بلکہ کڑی سزا کا عمل لاگو ہوتا ہے۔ ریمنڈڈیوس کو اس وقت کے صدر ، فوج، جنرل پاشا اور صوبائی حکومت کی غفلت پر چھوڑا گیا ۔ ن لیگ والوں کو چاہیے کہ اب کل بھوشن اور شکیل آفریدی جیسے جاسوس اور دہشت گردوں کا ٹرائل کر کے انہیں پھانسی دے کر ثابت کریں کہ ہم نے پی پی پی کے برعکس ،عوام کو انصاف مہیا کر دیا ہے ۔ لیکن تف ہے ہمارے پاکستانی ہونے پر کہ آج پورا بھارت ہمیں بے غیرت کہنے پر مجبور ہے کہ ہم میں غیرت نام کی کوئی رتی نہیں ہے۔ بھارتیوں کے مطابق وہ پاکستان کی سالمیت خاک میں ملانے والے کل بھوشن کو کسی بھی قیمت پر دن دھاڑے لے جائیں گے اور بدلے میں پاکستانی سالمیت اور آزادی کی قیمت چند لاکھ یا چند کروڑ ڈالرز پاکستانی حکمرانوں کے اکائونٹ میں ڈال کر ادا کردیں گے۔
اگر نواز حکومت بیرون ملک جائیداد کی منی ٹریل مہیا کرنے میں ناکام ہوئی تو فیصلہ حکمرانوں کے خلاف بھی آسکتا ہے ، ایسی صورت میںشنید ہے کہ عدالت میں حمزہ شہباز کا آنا اور چوہدری نثار کا میاں شہباز شریف کی گاڑی ڈرائیو کرکے جے آئی ٹی پیشی پر آنا، اس بات کا ثبوت ہے کہ شاید اب وزارت عظمیٰ کا گدھ میاں حمز ہ شہباز شریف کے سر پر بیٹھنے والاہے جس کا فیصلہ شریف فیملی میں ہو چکا ہے کیوں کہ کس بھی غیر متوقع فیصلے کی صورت میں نواز لیگ کے پاس یہی آپشن ہو گا ،نہیں تو پھر پارٹی کئی دھڑوں میں بٹ جائے گی ۔ ن لیگ نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ وہ موروثی پارٹی ہے اور اپنے ورکزر پر قطعاََ بھروسے نہیں کر سکتے۔
اگر فیصلہ حق میں آیا تو پی ٹی آئی پھر سے دھرنے کی ناکام مشق کرکے استعفی پر دبائو ڈالے گی ۔خواجہ سعد رفیق کی طرف سے اس نازک موقع پر عمران خان کو متنبہ کر کے کہنا کہ اگرہم گر ے تو پھر تم بھی ہمارے ساتھ گرو گے اور ہو سکتا ہے ہم ایک ہی ٹرک کے مسافر ہوں وغیرہ وغیرہ جیسے بیانات دیناڈر و خوف کی علامت ہے جو درحقیقت ن لیگ کی طرف سے اشاروں کنایوں میں ملٹری ایکشن کے خدشے کا کھلم کھلا اظہار ہے۔ سچ کہتے ہیں کہ سانپ کا ڈرا رسی سے بھی ڈرتا ہے۔10 جولائی کے دن سب کو جے آئے ٹی کی متوقع رپورٹ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا بے چینی سے انتظار ہے ۔ دفاعی پنڈتوں کے نزدیک یہ دن بہت زیادہ اہمیت کا حامل نہیں اور نہ ہی اس دن کوئی تاریخی فیصلہ آنے والا ہے۔ ہمارا تبصرہ یہ ہے کہ سماعت ہو جائے تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا اوراگر مئوخر ہو جائے تو بھی کوئی قابل ذکر بات نہیں ہے۔بقول غلام محمد قاصر: قاتل کو آج صاحب اعجاز مان کر۔دیوار عدل اپنی جگہ سے سرک گئی۔۔ خیر ،جس ملک میں آئین کو پائو ں تلے روند ڈالا جائے اور انصاف کا گلہ گھونٹ دیا جائے وہاںعدالت، میڈیامقننہ اور پارلیمنٹ سب چہرے مکر و فریب نظرآتے ہیں۔