تحریر : طارق حسین بٹ شان بہادر وہ نہیں ہے جو غیر آئینی طریقوں سے اپنے مخالفین کو بچھاڑتا ہے بلکہ بہار وہ ہوتا ہے جو فئیر پلے پر یقین رکھتا ہے اور اپنے مخالفین کو بھی اپنے دفاع کا پورا موقع فراہم کرتا ہے۔شیکسپئر اپنے شعرہ آفاق ناول ہیملٹ میں ہمیں بتا تا ہے کہ ناول کا ہیرو اپنے والد کے قاتل کو خود تلوار پیش کرتا ہے تا کہ مقابلے میں برابری کا تا ثر قائم رہے اور پھر دو بدو مقابلے میں اسے بچھاڑ کر اس کا کام تمام کر دیتا ۔نہتے دشمن کو قتل کرنا کہاں کی بہادری ہے؟مقابلے میں ذاتی انتقام کی بو محسوس ہونے لگے تو پھرقتل مقصد کی بجائے ذاتی انتقام کا شاخسانہ بن جاتا ہے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے دشمن کی گردن سے اس وقت اپنی تلوار ہٹا لی تھی جب اس نے انتہائی نفرت میں آپ کے منہ پر تھوک دیا تھا۔
دشمن کا قتل اب اسلام کی خاطر نہیں بلکہ اپنی توہین کا بدلہ لینے کے لئے قرار پاتا اس لئے دشمن کی ناپی گئی گردن کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے چھوڑ کر اسے زندگی بخش دی۔لہذ اکسی سازش سے مخالف کوگرانا اور پھر فائول پلے سے گرے ہوئے دشمن کو مارنا بہادروں کی لغت میں انصاف نہیں ہوتا۔لوگ سازش سے حاصل شدہ فتح کو پذیرا ئی نہیں بخشتے بلکہ بہادری سے جان دینے والے کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء میں ذولفقار علی بھٹو کے خلاف بھی سازش تیار ہو ئی تھی اور انھیں زنجیروں میں جکڑ کرتختہ دار پر لٹکا دیا تھا لیکن عوام نے ذولفقار علی بھٹوکی پھانسی کو قبول نہیں کیا۔
فیصلہ تو سپریم کورٹ کا تھا لیکن عوام نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو رد کر دیا تھا کیونکہ وہ جبر اور تعصب پر مبنی تھا اور جنرل ضیاا لحق کے دبائو کے تحت کیا گیا تھالہذا جبر اور تعصب سے کیئے گئے انصاف کو انصاف نہیں بلکہ انتقام کہتے ہیں۔امام مالک کوبنو عباس کے دور میں محض اس وجہ سے سزا سنائی گئی تھی کہ ان کا موقف تھا کہ کسی کے دبائو میں دی گئی طلاق شریعت میں جائز نہیں ہے۔یہ ایک نیا بیانیہ تھا جسے جبر کے پروردہ حکمران سننے کیلئے تیار نہیں تھے کیونکہ ان کا اپنا اقتدار بھی جبر کے پائیو ں پر قائم تھا۔،۔ کسی کو یہ کبھی نہیں بھولنا چائیے کہ میاں محمد نواز شریف کسی سازش سے نہیں بلکہ انتخابی معرکہ سر کرنے کے بعد وزیرِ اعظم پاکستان کی مسند کے سزاوار بنے ہیں۔یہ صرف پاکستانی عوام کا استحقا ق ہے کہ وہ کسے وزیرِ اعظم کی مسند پر دیکھنا چاہتے ہیں۔
عوام کا یہ استحقاق کوئی ادارہ یا اسٹیبلشمنٹ کا کوئی مہرہ استعمال نہیں کر سکتا۔عوام نے جمہوریت کیلئے بے شمار قربانیاں دی ہیں لہذا وہ لولی لنگڑی جمہوریت کو کسی سازش کا شکار نہیں ہونے دیں گے۔عوام کو اس سے قبل بھی احتساب کے بڑے سبز باغ دکھائے گئے تھے لیکن اب وہ سب کچھ قصہ پارینہ ہو چکے ہیں ۔ جنرل پرویز مشرف کا پانچ نکاتی ایجنڈہ ابھی کل کی بات ہے۔احتساب کی بات کرنے والا کرپشن اور لا قانونیت میں اضافہ کر کے رخصت ہوا۔ایک ڈیل کے ذریعے احتساب کی بساط لپیٹ دی گئی اور ایسے تمام افراد کو جن کے خلاف نیب میں مقدمات دائر تھے انھیں ڈرا دھمکا کر اپنی صفوں میں شامل کر کے ان کے خلاف فائلیں بندکر دی گئیں اورمیاں محمد نواز شریف کو ایک ڈیل کے تحت سعودی عرب روانہ کر دیا گیا ۔ بے نظیر بھٹو پہلے ہی جلا وطنی کا زہر پی رہی تھیں لہذا انھیں بھی وطن واپسی سے بزور روکا گیا تا کہ اقتدار کا ہما کسی دوسرے کے سر پر نہ بیٹھ سکے۔
ماہ و سال گزرتے گئے اور جنرل مشرف کی زیرِ قیادت نئی لیڈر شپ کرپشن اور لوٹ مار کا بازار گرم کرتی رہی ۔ عوام بے دردی سے اپنے لٹنے کا منظر دیکھتے رہے لیکن کوئی مسیحا ان کی مدد کوآگے نہ بڑھا کیونکہ اقتدار کا دلدادہ جنرل پرویز مشرف اقتدار کی مسند پر جلوہ افروز تھا اور اس کے حواری اس کی شان میں قصیدہ گوئی میں مصروف تھے۔وہ نجات دہندہ تھا لیکن صرف ان کا جن کا مطمعِ نظر لوٹ مار تھی۔جدید دور میں میڈیا کی یلغار نے عوامی شعور اور جمہوری روایات کو جو پختگی عطا کی ہے عوام اس سے کسی بھی صو رت میں دست بردار ہونے کو تیار نہیں ہیں۔پاناما لیکس میں میاں محمد نواز شریف کے خاندان کے ملوث ہونے کے کیا یہ معنی لئے جا ئیں کہ انھیں عدالتی احکامات سے وزارتِ عظمی سے فارغ کر دیا جائیگا؟سوال یہ نہیں ہے کہ میاں نواز شریف نے کرپشن کی ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ انھوں نے اپنے کاروبار کو جو وسعت دی ہے وہ اس کی منی ٹریل بتائیں۔ کیا پاکستان میں آج تک کسی سے یہ پوچھا گیا ہے کہ اس نے کاروبار کو کیسے وسعت دی ہے؟ جب آج تک کسی سے نہیں پوچھا گیا تو پھر میاں محمد نواز شریف سے یہ کیسے پوچھا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اپنے کاروبار کو کیسے وسعت دی ہے ؟جن فیلٹس کا جھگڑا ہے وہ میاں محمد نواز شریف کے نام نہیں بلکہ ان کے بیٹو ں کے نام ہیں لہذا اس سوال کا جواب بھی ان سے لینا چائیے کہ ان کے پاس یہ فلیٹس اور پیسہ کہاں سے آیا ؟اس سوال کا تعلق میاں محمد نواز شریف کے ساتھ ہر گز نہیں ہے۔
فرض کریں کہ میرے نام پر کوئی پراپرٹی ہے تو اس کا جواب دہ میں ہوں نا کہ میرے والدین یا رشتہ دار۔مجھے پراپرٹی رکھنے کے بارے میں تمام سوالات کا سامنا کرنا چائیے نہ کہ میرے والدین کو۔ اسے یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ جب کوئی انسان جرم کرتا ہے تو اس کی سزا صرف اسے ہی ملتی ہے اس کے والدین یا رشتہ دارو ں کو اس میں ملوث نہیں کیا جاتا۔اب جسے وزیرِ اعظم بننے کا شوق ہے وہ عوامی عدالت میں جائے اور عوامی مینڈیٹ سے وزارتِ عظمی کا تاج اپنے سر پر سجائے۔وہ پاناما لیکس میں گھپلوں اور فراڈ کو عوامی عدالت کے سامنے رکھے اور عوامی رائے کا انتظار کرے۔اسے دیکھنا ہو گا کہ کیا عوام پاناما لیکس میں میاں محمد نواز شریف کو اپنے ووٹ کی طاقت سے مسترد کرتے ہیں یا پاناما لیکس کو نظر انداز کر کے ان پر اعتماد کرتے ہیں؟اس بات کا فیصلہ کرنے کا کسی کو کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ کئی عشرے قبل کے گھڑے ہوئے مردے اکھاڑے اور خدشات کی بنیاد پر میاں محمد نواز شریف کو وزارتِ عظمی سے فارغ کر دے۔وزارتِ عظمی کا فیصلہ عوامی عدالت میں ہو نا چائیے۔
پی پی پی فروری ٢٠٠٨ کے انتخابات میں ملک کی سب سے بڑی جماعت تھی لیکن اپنی پانچ سالہ کارکردگی کی بنیاد پر مئی ٢٠١٣ کے انتخابات میں اس کی نیا ڈوب گئی ۔عوام نے سندھ کے علاوہ پورے ملک سے اس جماعت کا صفایا کر دیا۔اب اس کے چوٹی کے راہنما پی ٹی آئی میں دھڑا دھڑ شامل ہو رہے ہیں کیونکہ پی پی پی ایک نیم مردہ جماعت بن چکی ہے۔اگر پی پی پی اپنی کارکردگی کی بنیاد پر مئی ٢٠١٣ کا انتخاب ہار سکتی ہے تو پھر مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟ عوام کو یہ حق کیوں تیار نہیں دیا جاتا کہ وہ مسلم لیگ(ن) کی پانچ سالہ کارکردگی پر اس کا محا سبہ کریں اور اسے اقتدار کی راہداریوں سے بے دخل کر دیں ۔پانامالیکس پر حرفِ آخر کہنے کا حق صرف عوام کو حاصل ہے۔
اگر عوام میاں محمد نواز شریف کو گنہگار سمجھتے ہیں تو انھیں اپنے ووٹ سے نہیں نوازیں گے تب پی ٹی آئی یا پی پی پی اقتدار کی حقدارقرار پائئیں گی ۔عوامی عدالت کے فیصلے کے علاوہ کسی دوسرے طریقے سے اقتدار کا حصول غیر آئینی ہے لہذا عوام اسے مسترد کردیں گے ۔پاناما لیکس پر عوامی فیصلے کے بعد اقتدار میں آنے والی نئی حکمران جماعت کا یہ فرض بن جاتا ہے کہ وہ پاناما لیکس پر ایک ریفرنس تیار کرے اور قومی دولت لوٹنے کے جرم میں میاں برادران پر مقدمہ دائر کرے۔ متعلقہ ادارے اس الزام پر تحقیقات کریں اور مجرم ثابت ہو جانے پر میاں برادران پر قانون کا اطلاق کریں۔یہی وہ طریق ہے جس سے جمہوری ادارے مضبوط ہوں گے اور کسی کو یہ کہنے کا موقع نہیں ملے گا کہ ان کے خلاف انتقامی کاروائی کی جا رہی ہے۔سپریم کورٹ کا کام احتساب کرنا نہیں ہے بلکہ آئینی طور پر نیب کا کام احتساب کرنا ہے اور اسے ہی یہ کام کرنا چائیے ۔سپریم کورٹ میں نیب کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی جا سکتی ہے لیکن نیب کی بجائے اگر سپریم کورٹ ہی یہ فریضہ سر انجام دینے لگ جائے گی تو پھر لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات جنم لیں گے اور احتساب کو انتقام کا نام دیا جائیگا۔ جسے حیلے بہانوں سے مارنے کا اہتمام کیا جا رہا ہے وہ مزید توانا ہو جائے گا کیونکہ مارنے کا یہ طریقہ بالکل بھونڈا ہے۔،۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال