تحریر: سید انور محمود پاکستان پیپلز پارٹی ابھی صرف چار سال کی عمر کو ہی پہنچی تھی کہ 20 دسمبر 1971 کواس کے بانی اور چیرمین ذوالفقار علی بھٹو کو آئین سے محروم ملک کا صدر بنادیا گیا، نئی حکومت کے لئے سب سے زیادہ اہم کاموں میں سے ایک کام نئے آئین کا مسودہ تیار کرنا تھا۔ فیصلہ ہوا کہ ملک میں پارلیمانی اقتدار کا نظام ہونا چاہیے، ایک متفقہ آئین تشکیل دیا گیا اور وفاقی اسمبلی میں اکثریت کے ساتھ اسے منظور کرلیا گیا۔ 14 اگست 1973 کو ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایک متفقہ آئین نافذ ہوا۔آئین نافذ ہونے کے بعد بھٹو نے 14 اگست 1973 کو ہی وزیراعظم پاکستان کا حلف اٹھالیا اور وہ ملک کے پہلے جمہوری وزیر اعظم بن گئے۔پانچ جولائی 1977 تک بھٹو حکومت 1971 کی جنگ کے بعد بھارت کی قید میں موجود 90 ہزار فوجیوں کو رہا کرواکر پاکستان لاچکی تھی، لاہور میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کی، پاکستان اسٹیل مل اور ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا شروع کیئے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا۔ بھٹو کی خدمات پاکستان کے لیے ناقابل فراموش ہیں لیکن ان کا یہ کارنامہ کہ انھوں نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کی بنیاد رکھ کر قوم کو بھارت کے خوف سے آزاد کیا، ہمیشہ سنہرے حروفوں میں لکھا جاتا رہے گا۔ پانچ جولائی 1977 تک بھٹو حکومت سے کچھ ایسے کام بھی ہوئے جو قابل تنقید ہیں، صنعتوں اور دوسرے اداروں کو قومیانے کے نام پر سرکاری تحویل میں لے لیا گیا، جاگیرداروں کو پیپلزپارٹی میں لایا گیا، مخالفتوں کو دشمنی سمجھ لیا گیا اورجنرل ضیاءالحق کو فوج کا سربراہ تعینات کیا گیا۔
مارچ 1977کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے مدمقابل نو جماعتوں پر مشتمل پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے) کو 200میں سے صرف 36نشستیں حاصل ہوئیں تھیں۔ پی این اے نے انتخابی نتایج کوتسلیم کرنے سے انکار کردیا اور دھاندلی کے خلاف تحریک چلائی، یہ تحریک دراصل ایک جمہوری حکومت کے خلاف سازش تھی جس میں امریکی ڈالر کا بے تحاشہ استمال ہوا۔ تھوڑئے دن بعد دھاندلی کی تحریک نظام مصطفی تحریک میں تبدیل ہوگئی۔تحریک استقلال کے سربراہ سابق ائیر مارشل اصغر خان نے فوجی سربراہان کو خط لکھ دیا کہ منتخب حکومت کے احکامات نہ مانے جائیں۔حکومت نے حالات بہتر بنانے کے لیے پی این اے کے ساتھ مذاکرات شروع کیے، پی این اے کی ٹیم اور بھٹو کی ٹیم کے مذاکرات جاری تھے۔ پی این اے کے سیکرٹری جنرل پروفیسرغفور کے مطابق ”صرف معاہدے پر دستخط ہونا باقی تھے‘‘، مگر یکم جولائی کو ہی جنرل ضیاءالحق نے مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ پانچ جولائی 1977 کو بھٹو کے اپنے پسندیدہ آرمی چیف جنرل ضیاءالحق کی نیت میں فتور آچکا تھا، اس نےان کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا، جنرل کو امریکی سامراج کی آشیرباد بھی حاصل تھی۔ ملک میں مارشل لاء لگا جس نے ملک کو 11سال تک آمریت کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔
جنرل ضیاء الحق نے نوے روز میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا جو کبھی پورا نہ ہوا، ایک نام نہاد غیر جماعتی انتخابات 1985 میں ہوئے تھے۔نظریہ ضرورت کا سہارا لیتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انوار الحق نے مارشل لاء کو جائز قرار دے دیا۔ سب سے پہلے صحافت کا گلا گھونٹا گیا، آمرانہ وحشت کی آبیاری کیلئے دانش اور قلم پر قدغن بنیادی ضرورت ہوتی ہے۔ آمر نے بالکل ایسا ہی کیا سب سے پہلے صحافت پر شب خون مارا، پابندیوں کا طویل سلسلہ اخبارات کی بندش، بے رحم سنسر شپ کے بعدقبرستان کی سی خاموشی چھاگئی لیکن کچھ تھے جو اپنی جان ہتیلی پر لیے پھرتے تھے۔ اس بے رحم سرد خاموشی کو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے فورم سے پوری قوت سے للکارا گیا اورخاموشی توڑ ڈالی گئی۔نثار عثمانی، منہاج برنا، عبدالحمید چھاپرا، حفیظ راقب، آئی ایچ راشد، احفاظ الرحمان،شمیم الرحمان،اورنگزیب خان، ناصر زیدی، اقبال جعفری، مسعود اللہ خان سمیت کئی زندہ جاوید قلم کے مجاہدوں کی قیادت میں آزادی صحافت کی وہ تاریخ رقم ہوئی جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ ایک اور بھی تھا خاور نعیم ہاشمی، اس نے اصولوں پرسمجھوتا نہیں کیا معافی نہیں مانگی تو کوڑئے کھائے اور جیل کی اذیتیں برداشت کیں۔
چار جولائی 1977کی شام اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے میں امریکہ کے یوم آزادی کی تقریب ہورہی تھی جہاں وزیراعظم بھٹو بھی مدعوتھے اور آرمی چیف جنرل ضیاءالحق بھی مہمان تھے، تقریب بہت پرسکون تھی، کسی کو بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ چند گھنٹوں بعد پاکستانی عوام سے جمہوریت چھین لی جایگی۔ ویسے بظاہرقیامت کے کوئی آثار نہ تھے مگر بقول ممتاز صحافی مرحوم خالد حسن جب سفارتی میزبانوں نے جنرل ضیاءالحق کو دوسرے روز بھی ملاقات کیلئے مدعو کرناچاہا تو جنرل ضیاءالحق نے برجستہ جواب دیا ’کل وہ مصروف ہے‘، وہ سچ کہہ رہا تھا اور شاید اپنی پوری زندگی میں اس نے یہ ہی سچ بولا تھا۔کیونکہ اس کے بعد گیارہ سال وہ صرف جھوٹ بولتا رہا، اس کے دور میں پاکستانی قوم کیساتھ جو کچھ ہوا وہ پاکستان کی بدترین تاریخ ہے۔پانچ جولائی کا مارشل لاء نہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ خود ریاست پاکستان اور پاک فوج کے ارتقا اور زندگی کا ایک فیصلہ کن موڑ تھا۔ جنرل ضیاء نے عدلیہ کے ذریعے بھٹو کو پھانسی گھاٹ تک پہنچایا۔ پانچ جولائی کو جو کچھ ہوا وہ خود وزیراعظم بھٹو بھی جان چکے تھے لیکن تاخیر سے۔امریکہ اپنے سامراجی عزائم کی راہ میں بھٹو کو سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتا تھا۔ قصور تو بھٹو کا ہی تھا کہ کیوں پاکستان کےغریب عوام کو ان کے حقوق کی نشاندھی کی، کیوں لاہور میں پوری اسلامی دنیا کو اکٹھا کیا اور مسلم دنیا کی یکجھتی کی بات کی ، کیوں پاکستان دشمن قوتوں کے مذموم عزائم بھانپتے ہوئے نیوکلیئر پروگرام شروع کیا، وہ تیسری دنیا کو بھی سامراج کیخلاف بھڑکا رہا تھا ، واشنگٹن کیلئے یہ سب ناقابل برداشت تھا، امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر بہت پہلے بھٹو کو دھمکی دے چکا تھا۔
چار جولائی کی سہ پہر راولپنڈی کے اسٹیٹ گیسٹ ہاوس کے سبزہ زار پر بھٹو صحافیوں کے ایک گروپ سے گفتگو کرتے ہوئے بولے فرشتے آنیوالے ہیں! پی این اے جمہوریت کی بساط لپیٹنے کو تیار ہے جبکہ سفید ہاتھی بھی ان کی پشت پر ہے۔مولانا کوثر نیازی کی جانب دیکھتے ہوئے کہا کہ ’مولانا صاحب آپ بھی اذانیں دینے کی تیاری کرلیں‘۔ اور پھر چار اور پانچ جولائی کی شب وہی ہوا، منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ پانچ جولائی 1977پاکستانی تاریخ کا سیاہ دن تھا اور اس کا زمہ دار جنرل ضیاءالحق تھا۔ 17اگست 1988 کو جنرل ضیاءالحق فوج کے ایک پروگرام میں شریک ہوکر بہاولپور سے واپس اسلام آباد جارہا تھا کہ اس کا طیارہ فضا میں پھٹ گیا اور ساتھ ہی فضا میں وہ خود بھی پھٹ گیا، جس پر پاکستانی عوام کا کہنا تھا کہ’خس کم جہاں آباد‘۔پاکستانی عوام ابھی تک جنرل ضیاء کے مارشلاء کی قیمت منشیات، کلاشنکوف کلچر، نام نہادجہاد، فرقہ واریت، لسانی جھگڑوں، طالبان دہشتگرد اور پھر ان کی دہشتگردی کے خلاف جنگ کی صورت میں چکا رہے ہیں۔