کراچی (جیوڈیسک) انسانیت کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے والے عبدالستار ایدھی کو آج ہم سے بچھڑے ایک سال بیت گیا ہے۔ چھ دھائیوں تک انسانیت کی بلاتفریق خدمت کرنے والے ایدھی انتقال کے وقت تقریباً بیس ہزار بچوں کے سرپرست کے طور پر رجسٹرڈ تھے۔
انسانیت کے سب سے بڑے خدمت گار ایدھی کی پہلی برسی کے موقع پر ان کو یاد کرتے ہوئے پچاس برس تک ان کی ہمسفر رہنے والی ان کی اہلیہ بلقیس ایدھی کا کہنا تھا، “ایدھی لوگوں کو جینے کا طریقہ سکھا گئے۔ وہ کوئی کام ایسا نہیں کرنا چاہتے تھے جس سے کسی کی دل آزاری ہو۔ وہ بہترین انسان، اچھے شوہر اور باپ تھے۔ انہوں نے انتہائی سادگی سے سماجی خدمت انجام دی اور ہمیں بھی یہ ہی سکھایا، جس کی بنیاد پر ان کے جانے کے بعد ہم اس فاؤنڈیشن کو چلا رہے ہیں۔”
عبدالستار ایدھی 28 فروری 1928ء میں بھارت کی ریاست گجرات کے شہر بانٹوا میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے11برس کی عمر میں اپنی ماں کی دیکھ بھال کا کام سنبھالا جو ذیابیطس میں مبتلا تھیں۔ صرف 5 ہزار روپے سے اپنے پہلے فلاحی مرکز ایدھی فاؤنڈیشن کی بنیاد ڈالی۔
1973 ء میں جب کراچی شہر میں ایک پرانی رہائشی عمارت زمین بوس ہوئی تو ایدھی ایمبولینسیں اور ان کے رضا کار مدد کے لیے سب سے پہلے پہنچے۔ اس دن کے بعد سے آج تک ملک بھر میں کوئی بھی حادثہ ہو، ایدھی ایمبولینسیں مدد فراہم کرنے میں پیش پیش نظر آتی ہیں۔ ایدھی نے صرف ایمبولینس ہی نہیں بلکہ بھوکے افراد کے لیے بھیک مشن شروع کیا تو چند گھنٹوں میں کروڑ روپے جمع کیے۔ لاوارث بچوں کے سر پر دستِ شفقت رکھا اور بے سہارا خواتین اور بزرگوں کے لیے مراکز قائم کیے۔ تقریباﹰ ایک لاکھ بے گور کفن لاوارث لاشوں کی صرف کراچی میں عزت و احترام کے ساتھ تدفین کی۔
عبدالستار کے قریبی دوست اور سماجی کاموں میں ان کے دست راست انور کاظمی کا ایدھی کی شخصیت کے بارے میں کہنا تھا، ” میں عبدالستار ایدھی کو ان کی سماجی خدمات سے بالاتر دیکھتا ہوں۔ وہ نہ صرف قوم بلکہ پوری انسانیت کا درد رکھنے والے ایک عظیم انسان تھے۔ جب انہوں نے سماجی بھلائی کا کام شروع کیا تو چار اصول اپنائے۔ سادگی، سچائی، محنت اور وقت کی پابندی۔ اور وہ آخری دم تک انہی اصولوں پر کاربند رہے۔”
اپنی سماجی خدمات میں بے مثال عبدالستار ایدھی 8 جولائی 2016ء میں گردوں کے عارضے میں مبتلا ہو کر 88 سال کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ کراچی کے قریب ایدھی ویلیج میں سپرد خاک کیا گیا۔ مرحوم ایدھی نے اپنی آنکھیں عطیہ کر کے مرنے کے بعد بھی دکھی انسانیت کی خدمت کی جس کی وجہ سے دو افراد کی آنکھوں کو روشنی مل سکی۔
عبدالستار ایدھی کے گزر جانے کے بعدایدھی فاؤنڈیشن کی باگ ڈور ان کے بیٹے فیصل ایدھی نے سنبھال رکھی ہے۔ تاہم کئی دہائیوں سے ہر مشکل وقت میں قوم کے شانہ بشانہ کھڑا یہ ادارہ اب مالی طور پر مشکلات کا شکار نظر آرہا ہے۔ اس حوالے سے فیصل ایدھی بتاتے ہیں، “والد کی وفات کے بعد ایدھی فاؤنڈیشن کے خلاف کئی پروپگینڈا مہم چلائیں گئیں اور ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ والد کے مرنے کے بعد ان پر کئی الزامات لگائے گئے اور لوگوں سے کہا گیا کہ وہ ایدھی کے نام پر عطیات نہ دیں۔”
فیصل ایدھی مزید بتاتے ہیں، “والد کی وفات کے بعد ادارے کے عطیات میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے اور فنڈز کی کمی کہ وجہ سے دکھی انسانیت کی خدمت اور امدادی سرگرمیوں میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کے باوجود عبدالستار ایدھی کا شروع کیا گیا مشن نہیں رکے گا۔ ”
مشکلات چاہے جتنی ہوں فیصل ایدھی والد کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے پُر عزم ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ” ایدھی فاؤنڈیشن ایمبولینس ڈرائیورز، میڈیکل ٹیکنیشنز اور پیرامیڈیکس کی تربیت کے لیے کراچی میں پہلا اسکول کھولنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ ایدھی ایئر ایمبولینس سروس جو 80 کی دہائی میں شروع کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور چند مشنز پر جانے کے بعد اسے معطّل کر دیا گیا تھا، اس سروس کو ایک بار پھر بحال کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ایک چھوٹا طیارہ بھی خریدنے کا منصوبہ ہے جس کی مدد سے پھنسے ہوئے افراد کو ریسکیو کیا جا سکے گا۔”