تحریر: شیخ توصیف حسین گزشتہ دنوں میں اپنے صحافتی فرائض کی ادائیگی کے دوران ذہنی تھکاوٹ سے نڈھال ہو کر ہوٹل پر چائے پینے کیلئے پہنچا تو وہاں پر چند ایک دوست جو دیکھنے میں بہت زیادہ ذہین لگتے تھے آپس میں یہ شرط لگا رہے تھے کہ ہم میں سے جو سب سے زیادہ سفید جھوٹ بولے گا ہم سب دوست ملکر اُسے وی آئی پی پارٹی دے گے یہ سن کر تمام کے تمام دوست کہنے لگے کہ اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ فلاں نے سب سے زیادہ سفید جھوٹ بو لا ہے تو تمام دوست کہنے لگے کہ اس کا فیصلہ عوام پر چھوڑ دیتے ہیں یہ سن کر اُن میں سے ایک دوست کہنے لگا کہ گزشتہ روز ضلع جھنگ کے تمام سیاست دانوں نے اپنے ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہو کر بول ٹی وی چینل پر شیخ وقاص اکرم کے پروگرام میں اپنے کالے کرتوتوں کا پردہ چاک کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہاں ہاں ہم سب سیاست دانوں نے ملکر اپنے ضلع جھنگ جس کا کبھی حدود اربعہ شیخو پورہ سمندری میانوالی اور ملتان سے جا ملتا تھا کو اس قدر بے دردی سے لوٹا کہ یہ ضلع پسماندگی کی راہ پر گامزن ہو کر صرف تحصیل شورکوٹ اور تحصیل جھنگ تک محدود ہو کر رہ گیا یہی کافی نہیں ہم نے اپنے ضلع جھنگ جو پیارومحبت بھائی چارے کے ساتھ ساتھ امن و امان کا گہوارہ تھا میں مذہبی فسادات کروا کر آگ اور خون کی ایسی ہولی کھیلی کہ جس کے نتیجہ میں یہاں کی عوام اپنے پرانے رشتے ناطے بھول کر ایک دوسرے کی جان کی دشمن بن کر قتل و غارت پر اتر آئی جس کی وجہ سے متعدد گھروں کے چراغ گل ہو گے جبکہ متعدد بند سلاسل اس اذیت ناک حالت کو دیکھ کر لاتعداد خاندان ضلع بدر ہو گئے۔
قصہ مختصر ہر طرف چیخ و پکار اور آہوں کی درد ناک آ وازیں ہمارے کانوں سے ٹکراتی تھی لیکن ہم دل ہی دل میں خوش تھے چونکہ ہم اپنے نا پاک عزائم کی تکمیل میں کامیاب ہو کر جھنگ کی بھولی بھالی اور ناسمجھ عوام کو دو حصوں میں تقسیم کر چکے تھے جس کے نتیجہ میں ہم ضلع جھنگ کی تعمیر و ترقی کیلئے ملنے والے فنڈز کئی عرصہ تک از خود ہڑپ کرتے رہے یہی کافی نہیں ہم نے ضلع جھنگ کی بیوقوف عوام کو مذید بیوقوف بنانے کیلئے کئی سر سبز باغ دکھاتے رہے جس میں سر فہرست یونیورسٹی کا سر سبز باغ سر فہرست ہے لیکن ہم نے یہ سوچ کر مذکورہ یو نیورسٹی یہاں قائم کر نے کے بجائے اسلام آ باد میں قائم کر دی کہ اگر یہاں کی نااہل عوام کے بچے مذکورہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر کے شعور پا گئے تو یہ ہمارا سیاسی بستر بوریا گول کر دیں گے بس اسی سوچ کے مطا بق ہم نے یونیورسٹی جھنگ سے کوسوں میل دور اسلام آ باد میں قائم کر دی تھی کہ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہاں ہاں ہم نے جھنگ سے کراچی جانے والی بوگی کو ایک سوچے سمجھے ڈرامے کے ذریعے بند کروا دیا تھا چونکہ ہماری ٹرانسپورٹ کو کافی مالی نقصان کا سامنا کر نا پڑ رہا تھا اور ہاں ہم نے جنرل بس سٹینڈ جھنگ کو محض اس لیے تباہ و بر باد کر دیا تھا کہ جو اب بھوت بنگلہ کی شکل اختیار کر چکا ہے کی وجہ سے ہمیں مالی نقصان کا سامنا کر نا پڑ رہا تھا جبکہ بلدیہ جھنگ کو کروڑوں روپے کا فائدہ لیکن اب ہم مذکورہ جنرل بس سٹینڈ جھنگ کی تباہ حالی کا بھرپور فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔
ہم جھنگ کے معروف چوکوں اور پٹرول پمپوں پر بسوں اور ویگنوں کے ناجائز اڈے قائم کر کے نان اے سی بس سے پانچ سو روپے اے سی گاڑی سے بارہ سو روپے جبکہ ہائی ایس ویگن سے فی چکر چار سو روپے وصول کر رہے ہیں یہی کافی نہیں ہم نے اپنے سیاسی اثر و رسوخ سے اپنے ضلع جھنگ سے موٹر وے بھی نہیں گزرنے دی اور تو اور ہم نے بلدیاتی الیکشن کے دوران الیکشن کمیشن کے قوانین کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے یہاں کی بیوقوف اور بے حس عوام کے بے ضمیر ممبران کو کروڑوں روپے دیکر چیرمین شپ جیت کر بلدیہ جھنگ کے آ قا بن کر حکمرانی کر نے لگے اس دوران ہم نے اپنے سیاسی مخالفین جن میں بلدیہ جھنگ کے اہلکار بھی شامل ہیں کو ذہنی اذیت دیکر ضلع بھر میں رسوا کر نا شروع کر دیا جبکہ متعدد کو جھوٹ پر مبنی الزامات لگا کر نوکری سے نکال دیا جبکہ متعدد کیلئے کوشاں ہیں حالانکہ اس دوران سیکرٹری بلدیات پنجاب نے ایک تحریری حکم نامہ ارسال کیا کہ جس کی رو سے ہم نہ بلدیہ جھنگ میں ملازم رکھ سکتے ہیں اور نہ نکال سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم نے اس حکم نامے کو سگریٹ کے دھوئے کی طرح ہوا میں اُڑاتے ہوئے متعدد ملازمین پر بے بنیاد الزام لگا کر نوکری سے نکال دیا در حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے جو یہ گھنائو نے اقدامات عوام کے ساتھ کیے ہیں محض عوام کو موجودہ حکومت کے خلاف بھڑکانے کی ایک سازش تھی۔
چونکہ موجودہ حکومت نے ہمارے بزرگ سیاست دان کو حویلی بہادر شاہ میں نہ صرف سٹیج سے اتار دیا تھا بلکہ ہماری سیاسی مخالف غلام بی بی بھروانہ کی سپورٹ بھی کرنے میں مصروف عمل ہے لیکن اب ہم خداوندکریم کی خوشنودگی کی خا طر اپنی تمام تر لوٹی ہوئی ملکی دولت سرکاری خزانے میں جمع کروانے کے ساتھ ساتھ جھنگ کی عوام سے معافی مانگتے ہوئے اُن سے درد مندانہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ تباہ حال ضلع جھنگ کو ڈویژن بنانے میں ہمارا ساتھ دے ہم انشاء اللہ تعالی ضلع جھنگ کو پیرس بنا دیں گے اور اگر ہم نے 2018کے الیکشن سے قبل لوٹی ہوئی ملکی دولت کو سرکاری خزانے میں جمع نہ کروائے تو بے شک آپ اپنا قیمتی ووٹ ہمیں ہر گز ہر گز نہ دیں کم از کم اپنے ضلع کی بہتری اور بھلائی کیلئے یہ کہہ کر وہ دوست خاموش ہوا تو دوسرا دوست کہنے لگا کہ آج کی تازہ خبر یہ ہے کہ ڈی آئی جھی ٹریفک پو لیس نے ڈی ایس پی ٹریفک پولیس جھنگ نسیم اختر کو یہ کہہ کر نوکری سے فارغ کر دیا کہ تم نے اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے نہ صرف ظلم و ستم لوٹ مار اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کی ہے بلکہ ضلع جھنگ میں ٹریفک کے نظام کو تباہ و بر باد کر دیا ہے جس کے نتیجہ میں قانون شکن ٹرانسپوٹرز لا قانو نیت کا ننگا رقص کر کے قانون کی عظمت کو پامال کر نے میں مصروف عمل ہیں۔
جگہ جگہ پر بسوں ویگنوں کے ناجائز اڈے آپ کی کرپشن کا منہ بولتا ثبوت ہیں مذکورہ ڈی ایس پی ٹریفک پولیس کی اس حالت زار کو د یکھ کر ٹریفک پولیس کے انسپکٹرز و دیگر عملہ جس میں مغلیہ خاندان کے چشم و چراغ شہزادہ سلیم المعروف روٹیاں والی سرکار جو مذکورہ ڈی ایس پی ٹریفک پولیس کو اعلی سے اعلی کھانا کھلانے کیلئے ہر اہلکار سے تقریبا دو سو روپے بھتہ وصول کرتا تھا نے خداوندکریم کے حضور ہاتھ باندھ کر دعا کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم آ ئندہ رشوت لینے اور دینے والوں پر لعنت بھیج کر یہ وعدہ کرتے ہیں کہ ہم آ ئندہ اپنے فرائض و منصبی صداقت امانت اور شرافت کا پیکر بن کر ادا کریں گے یہ کہہ کر دوسرا دوست خاموش ہوا تو ایک اور دوست کہنے لگا کہ ای ڈی او ہیلتھ جھنگ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آ فیسر کے علاوہ ڈرگ انسپکٹر نے مشترکہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ ہم انسانیت کی بہتری اور بھلائی کی خا طر نہ صرف شہری و دیہی علاقوں میں پھیلی ہوئی نوے پرسنٹ عطائیت بلکہ ڈی ایچ کیو ہسپتال جھنگ کے گردونواح میں پھیلی ہوئی لیبارٹری جن پر عطائی ڈاکٹرز پریکٹس کر رہے ہیں کا بھرپور طریقے سے محاسبہ کر کے انسانیت کی بہتری اور بھلائی کیلئے اقدامات کرے گے اُن دوستوں کی ان باتوں کو سننے کے بعد میں سوچوں کے سمندر میں ڈوب کر یہ سوچتا ہوا واپس آ گیا کہ ان کا سفید جھوٹ بھی حقیقت کے کتنے قریب ہے بہرحال یہ فیصلہ تو عوام نے کر نا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ عوام کیا فیصلہ کرتی ہے۔