تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی کمرے کا دروازہ زور دار آواز سے کھُلا اور میرے سامنے ننگ دھڑنگ ننگا، اُدھیڑ عمر کا شخص آکر کھڑا ہو گیا، ‘اندر آتے ہی بے تکلفی سے اُس نے مصافحے کے لیے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا، میں اِس حیران کن حادثے کے لیے بلکل بھی تیار نہیں تھا، میرے اعصاب بکھر چکے تھے، سانس رک چکی تھی، اور سوچیں فالج زدہ ‘میرا دل و دماغ دونوں خالی ہو چکے تھے، میں خالی حیران نظروں سے اُس شخص کو دیکھ رہا تھا، جس کو بلکل بھی احساس نہیں تھا، کہ وہ بے لباس میرے سامنے کھڑا ہے، اُس کی حرکات و سکنات سے لگ رہا تھا، جیسے اُس کے لیے ہر چیز نارمل ہے، وہ اپنی بے لباسی پر بلکل بھی شرمندہ نہیں تھا، اگر میری جگہ کوئی بھی ہوتا، تو یقینا وہ بھی عالم تحیر میں میری طرح ہی غرق ہو جاتا، ‘میری نظر ایسے کسی بھی منظر کے لیے تیار نہ تھی، اور نہ میں نے کبھی ایسا منظر دیکھا تھا، میں حیرت سے اُس کو دیکھ رہا تھا، اب اُس نے ایک اور عجیب حرکت کی مجھے زبردستی کندھے سے پکڑ کر اٹھایا، جپھی ڈالی ‘واپس مجھے صوفے پر دھکیلا اور میرے سامنے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھ گیا اور میرا حال چال پوچھنے لگا۔
میں مدد طلب نظروں سے دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا، کہ کوئی آکر مجھے اِس مشکل صورتحال سے نکالے یا مجھے اِس غیر انسانی سلوک کی وجہ بتائے، ابھی میرے اعصاب منتشر ہی تھے، کہ اُس نے ایک اور انداز بدلا، اب اُس کے منہ سے گھر والوں اہل محلہ حکمرانوں کے بارے میں گالیوں کا طوفان اُبل پڑا گالیاں ایسی کے کان جلنے لگے، وہ اب وہ کے ٹو پہاڑ جتنی بڑی گالیاں اِس طرح داغ رہا تھا، جیسے اُس کے منہ سے پھول جھڑ رہے ہوں، جیسے وہ انتہائی مہذب شائستہ گفتگو کر رہا ہو، میں حیرت کا بُت بنا کسی کے آنے کا انتظار کر رہا تھا، اِسی دوران اس نے زور دار قہقے لگانے شروع کر دئیے، اب وہ اچانک اُٹھا اور تیزی سے میری طرف بڑھا وہ کسی بات پر قہقے لگا رہا تھا، میرے پاس آکر زور سے اُس نے ہاتھ پر ہاتھ مارنے کی کوشش کی جیسے دوست آپس میں دوران گفتگو کرتے ہیں، میں اُس کے اِس عمل کے لیے بلکل بھی تیار نہیں تھا، اُس نے خود ہی زور دار میری ٹانگ پر ہاتھ مارا اب کبھی تو وہ چھت کی طرف دیکھ کر فلک شگاف قہقے لگاتا کبھی صوفے پر کبھی میرے بازو پر کبھی کندھے پر بے تکلفی سے ہاتھ مارتا میرے لیے اب اُس کا رویہ ناقابل بر داشت ہوتا جارہا تھا، میں جو مختلف غصیلے مزاج کے لوگوں سے بھی نرمی سے بات کر لیتا تھا، یا ہزاروں لوگوں سے ملنے کے بعد اب میں میری مرضی کے خلاف لوگوں سے بھی ڈیل کر لیتا تھا، یہاں پر مجھے اِس شخص کو ڈیل کرنا مشکل ہو رہا تھا، وہ ابنارمل حرکتیں کر رہا تھا، اور نہ ہی میں اِس شخص کو جانتا تھا، کہ وہ ایسے کیوں کر رہا ہے، اس کا پس منظر کیا ہے، آخر گھر والوں نے شاید اِس کے فلک شگاف نعرے قہقے اور چیخیں سن لیں تو اِسکا بیٹا اندر آیا، اور مجھ سے معافی مانگتے ہوئے اپنے باپ کو باہر لے جانے کی کوشش کرنے لگا باپ اندر جانے سے ا نکار کر رہا تھا۔
بیٹا زبردستی گھسیٹ کر اُس کو گھر کے اندر لے جانے کی کوشش کرنے لگا، جب بیٹا کامیاب نہ ہوا تو میرے پاس آکر کہا یہ پاگل ہے، خدا کے لیے میری مدد کریں، اِس کو اندر لے جانے کی ورنہ یہ آپ کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے، اب میں نے بھی بیٹے کا ساتھ دیا ہم اس شخص کو تقریبا گھسیٹتے ہوئے اندر کمرے میں لے گئے، کمرے کے اندر پنجرے نما کمرے میں جاکر اُس کو دھکیلا، اور باہر سلاخوں والے دروازے کو بند کرکے تالا لگا دیا، اِس دوران بیٹے کی ماں بھی آگئی، وہ بھی مجھ سے معافی مانگ رہی تھی، دونوں ماں بیٹا آپس میں لڑ رہے تھے، کہ ابا صاحب پنجرے نما کمرے سے باہر کیسے آگئے، اب ہم ڈرائینگ روم میں آکر بیٹھ گئے، دونوں ماں بیٹا مجھ سے بہت شرمندہ تھے میرے پاس بیٹا کئی دن سے آرہا تھا، کہ میرے گھر ایک ذہنی مریض ہے جس کو دورے پڑتے ہیں، میںاُس کو آپ کے پاس نہیں لاسکتا آپ برائے مہربانی میرے ساتھ چل کر اُس کو دیکھ سکیں، لہٰذا آج میں اِس کے بیٹے کے ساتھ اِن کے گھر میں مریض دیکھنے آیا تھا، لڑکا مجھے ڈرائینگ روم میں بٹھا کر شائد دوکان سے کولڈ ڈرنک وغیرہ لینے گیا تھا، اُس کی غیر موجودگی میں میرے ساتھ یہ ڈرامہ ہوا تھا، کیونکہ میں اِس غیر معمولی ڈرامے کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں تھا، اِس لیے مجھے مریض کو سنبھالنے میں مشکل پیش آئی۔
اب میرا تجسس جو بن پر تھا، کہ اِس پاگل میرض کی اِن حرکتوں کا پس منظر کیا ہے، توماں بولی سر میں آپ کو بتاتی ہوں، میرا میاں جوانی میں کہانیاں لکھنے کا شوقین تھا، چھوٹے موٹے رسالوں میں کبھی کبھار کوئی کہانی چھپ بھی جاتی تھی، اِس کے تعلق فلمی دنیا کے لکھاریوں سے بھی تھے، فلموں میں کام کی شوقین لڑکیوں کو یہ فلموں میں کام دینے کا جھانسا دے، کر یہ اُس کے جسموں سے کھیلتا، جو اِس کی بات نہ مانتیں، تو یہ اُن کو کسی بہانے سے گھر لے آتا، ہم لوگ گائوں میں رہتے تھے، لاہور میں یہ اکیلا رہتا تھا، لڑکی کو گھر لا کر بند کر دیتا پھر اُن کی عزتوں سے کھیلتا، ‘منہ کالا کرتا اُن کی تصویریں ویڈیو بناتا ‘اُن کو بلیک میل کرتا ‘شروع میں تو اللہ نے اِس کی رسی دراز رکھی لیکن پھر قدرت نے دراز رسی کھینچ لی۔
ایک بااثر خاندان کی لڑکی کے ساتھ جب اِس نے یہ کھیل کھیلنا چاہا، تو اُس کے گھر والوں نے اِس کو پکڑ کر خوب مارا، اور پھر تھانے بند کر ا دیا تھانیدار کو پیسے دے کر انہوں نے اذیت ناک سزائیں دلائیں، جن کو یہ برداشت نہ کر سکا، اور اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا، جب یہ قید سے رہا ہو کر گھر آیا، تو ذہنی مریض بن چکا تھا، ہم نے علاج کرنے کی بہت کوشش کی، لیکن اِس کی حالت بگڑ گئی، اب یہ مکمل پاگل بن چکا ہے، ‘کپڑے اتار کر گلیوں میں نکل جاتا ہے، اِس لیے ہم اِس کو اُسی کمرے میں لا کر بند کر دیتے ہیں، ‘جہاں کبھی یہ معصوم لڑکیوں کو بند کر دیتا تھا، اب کبھی تو یہ روتا ہے، کبھی ہنستا ہے کبھی قہقے لگاتا ہے، یہ کسی وقت کچھ بھی کرسکتا ہے، اِس لیے ہم اِسکو کھلا نہیں چھوڑتے اب یہ لاعلاج ہوچکا ہے، اِس کا علاج کسی کے پاس نہیں ہے، اب یہ پنجرہ ہی اِس کا ساتھی ہے، آزاد فضائوں میں یہ رہنے کے قابل نہیں ہے، میں خدا کے نظام عدل پر حیران ہو رہا تھا، کہ اُس عادل بادشاہ نے اِس کو کیسی سزا دی، جیسے یہ مجبور بے بس لڑکیوں کو دیتا تھا، اِس نے دھاڑیں مار کر رونا شروع کر دیا، میں پنجرے کے پاس گیا اور دیکھا تو وہ بولا مجھے خدا کے لیے باہر نکا لو، تو میں نے اُس کی آنکھوں میں گھورا اور کہا آزاد فضائوں میں انسان رہتے ہیں، کیونکہ تم جانور ہو، اِس لیے جانور پنجروں میں رہتے ہیں، یہ کہہ کر میں گھر سے نکل آیا۔