تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں سرگرم عسکری تنظیم حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے ایک سال مکمل ہونے پر کشمیر میں ہڑتال ہے۔حریت کانفرنس اور جہاد کونسل کی اپیل پر یہ ہڑتال کی جا رہی ہے۔ان تنظیموں نے ایک ہفتے کی ہڑتال کی اپیل کی ہے جبکہ بھارت کا کہنا ہے کہ برہان وانی کی برسی منانا حماقت ہے کیونکہ وہ کسی کا ہیرو نہیں ہو سکتا۔انتظامیہ نے سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے ہیں۔ دارالحکومت سرینگر اور جنوبی کشمیر میں کرفیو اور دفعہ 144 نافذ ہے اور انٹرنیٹ کی خدمات معطل ہیں۔کشمیر:عسکری، نفسیاتی، سیاسی تبدیلیاں۔ کشمیر: برہان کی برسی پر سخت سکیورٹی، اضافی نفری تعینات۔برہان وانی کے علاقے ترال اور اس کے قرب و جوار میں پولیس اور سرحدی فورس کے اہلکاروں کا سخت پہرہ ہے۔
حریت کے تمام بڑے لیڈروں کو پہلے ہی ان کے گھروں میں نظر بند کر دیا گیا ہے۔حریت رہنما میر واعظ عمر فاروق نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ انھیں 12ـ13 دن سے ان کے گھر کے اندر رکھا گیا ہے۔ ان کے گھر تک پہنچنے پر بی بی سی کی ٹیم کو سکیورٹی اہلکاروں نے اندر جانے سے روک دیا۔انٹرنیٹ کی سہولیات جمعے کی رات سے ہی منقطع کر دی گئی ہیں۔ حکام کے مطابق صورت حال کے جائزے کے بعد ہی ان خدمات کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔کشمیر کے حساس علاقوں میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیںانٹرنیٹ سہولیات ختم کرنے کے فیصلے پر عام لوگوں نے سخت مذمت کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سکیورٹی فورسز کے دفاتر میں بھی کچھ افسروں نے اس پر ناراضگی ظاہر کی۔مرکزی ریزرو پولیس فورس کے ایک اعلیٰ افسر اجے کمار کے مطابق فورس کو پوری وادی میں تعینات کیا گیا ہے۔
دارالحکومت سری نگر میں ہر اس علاقے میں آٹومیٹک رائفلوں سے لیس پولیس کی نفری تعینات ہیں جہاں لوگوں زیادہ ہوتے ہیں۔ جمعہ کو شہر کی جامع مسجد میں نماز کی اجازت نہیں دی گئی۔ اجے کمار کے مطابق ہر شہر کے جامع مساجد میں جمعہ کی نماز پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ اطلاعت کے مطابق چھوٹی مساجد میں جمعہ کی نمازیں ادا کی گئہیں لیکن وہاں بھی حکام نے امام مسجد سے جمعے کے خطبے میں سیاسی باتیں نہ کرنے کی اپیل کی تھی۔وادی میں صورت حال کشیدہ ہونے کی وجہ سے انتظامیہ کے مطابق سکیورٹی کے نقطہ نظر سے تمام ممکنہ اقدام کیے گئے ہیں۔ اجے کمار کہتے ہیں انھیں نہیں لگتا کہ لوگوں میں ہڑتال کی اپیل کا کوئی خاص اثر ہے۔
ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے پیلٹ گن کا استعمال متنازع ہے جمعے کے دن بازار کھلے ہوئے تھے۔ دکانوں میں خریدار بھی نظر آ رہے تھے۔ لیکن گذشتہ دنوں کے مقابلے میں سیاح بہت کم نظر آئے۔ امرناتھ کے زائرین کی حفاظت کے پیش نظر آنے والے ہفتہ تک سفر پر پابندی لگا دی گئی ہے۔برہان وانی کی پولیس تصادم میں موت کے بعد ہفتوں تک جاری رہنے والے پرتشدد واقعات میں 80 سے زائد شہری ہلاک ہو گئے تھے۔ بہت سے لوگ پیلٹ گنز سے زخمی ہو گئے تھے اور ان میں سے کئی لوگوں کے آنکھوں کی روشنی چلی گئی تھی۔پیلٹ گن کا استعمال ایک مسئلہ بن گیا تھا۔ اجے کمار نے کہا کہ بھیڑ کو کنٹرول کرنے کے لیے ان کی فورس کے پاس سب سے کم نقصان پہنچانے والا ہتھیار پیلیٹ گن ہی ہے۔ ان کے مطابق مستقبل میں بھی ضرورت پڑنے پر اس کا استعمال کیا جائے گا۔(بشکریہ بی بی سی رپورٹ )برھان وانی کی شہادت سے لے کر اب تک یعنی ایک سال میں200کے قریب لوگ شہید، 18885کشمیر ی زخمی،7774لوگ پیلیٹ گن (یعنی چھروں) سے زخمی،بچوں،نوجوانوں اور لڑکیوں سمیت 77کشمیریوں کی مکمل بینائی ختم ہوگئی۔جبکہ جزوی طور پراندھوں کی تعداد1973 ہے۔ مالی طور پر جو معیشت کا نقصان ہوا ہے وہ تقریبا 17500کروڑ روپے ہے لیکن اس سب کے باوجود کشمیری میدان میں کھڑے ہیں۔
برھان وانی کی شہادت کوایک سال مکمل ہونے پر متحدہ جہادکونسل نے عشرہ شہدامنانے کا اعلان کیا جسے مقبوضہ کشمیر کی حریت کانفرنس نے قبول کرتے ہوئے اعلان کردیا۔اس اعلان کے ساتھ ہی ہندوستان کی نیندیں حرام ہوگئیں۔سکولوں میں چھٹیاں کردی گئیں تاکہ نوجوان بھارت مخالف احتجاجی مظاہروں میں شرکت نہ کرسکیں۔21000پولیس فورس کے دستے مزید کشمیر بھیج دیے گئے۔فوج کی مزید ٹکڑیاں وارد کشمیر ہوئیں۔اس کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے میڈیا نے متعصبانہ رویہ اختیارکرتے ہوئے کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلا ف ورزیوں پر اپنی فوج کے کندھے اچکائے۔بھارتی عدالت نے ہندوستانی فوج کو سنگبازوں کے خلاف ہر طرح کا اسلحہ استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔بی بی سی نے اپنے خبث باطن کو ظاہر کرتے ہوئے سکیورٹی فورسز کے انسانی حقوق کے حوالے سے دہشتگردبھارتی فورسز کے انٹرویو شائع کرنے شروع کردیے۔اس طرح کا ماحول بنادیاگیا کہ نہتے معصوم،ہاتھوں میں پتھر اٹھا کراحتجاج کرنے والے دنیا کے انتہائی خطرناک مجرم ہیں اور آٹھ لاکھ سے زائد کشمیریوں کو قتل کرنے والی بھارتی سکیورٹی فورسز معصوم ہیں۔ کشمیر جل رہاہے کشمیری تکمیل پاکستان کے لیے استحکام پاکستان کے لیے پاکستان سے رشتہ کیا لاالہ الااللہ کا نعرہ بلند کرکے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں۔(شفقت حسین انجم )انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیموں کے منہ پر طمانچے ہیں کہ کہ کشمیری نوجوان کو جیپ سے باندھ کر ڈھال بنانے والے بھارتی فوج کے میجر نیتن گوگوئی کو سراہتے ہوئے خصوصی سرٹیفکیٹ سے نواز دیا گیا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی چیف آف آرمی اسٹاف نے انہیں اس خصوصی ایوارڈ سے نوازا۔گزشتہ ماہ 9 اپریل کو سوشل میڈیا کے ذریعے ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں ایک کشمیری نوجوان کو بھارتی فوج کی جیپ کے بونٹ سے باندھ کر گشت کیا جارہا تھا۔اس واقعے کی دنیا بھر میں شدید مذمت کرتے ہوئے اسے انسانیت سوز واقعہ قرار دیا گیا تھا جس کے بعد بھارتی فوج نے معاملے کی تحقیقات کا اعلان کیا۔جبکہ مقبوضہ کشمیر کی وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے اس حوالے سے اپنے ایک پیغام میں کہا تھا کہ اس معاملے کی بیرواہ پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کی جاچکی ہے لیکن وہ کہتے ہیں ” ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ” اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ الٹا ایسی حرکت کرنے والے اہلکار کو شاباش دی گئی ہے۔ایوارڈ سے نوازنا اس سے بھی زیادہ انسانیت کی تذلیل ہے اس پر یہاں انسانی حقوق کی دعویدار تنظیموں کو ڈوب مرنے کا مشورہ اور مودی سرکار پر تف ہی کہی جا سکتی ہے۔مودی کو یہ بات بقول بھارتی مصنفہ و سماجی کارکن اروندھتی رائے کے ذہن نشین کر لینی چاہیئے کہ وہ بھارت کشمیر میں 7 کے بجائے 70 لاکھ فوج بھی تعینات کر دے، تب بھی اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکتا۔مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کشمیر میں بھارتی افواج معصوم کشمیریوں پر قیامت برپا کئے ہوئے ہیں مگر انسانی حقوق کے علمبراد خواب غفلت کے مزے لوٹ رہے ہیں !بھارتی افواج کے کشمیر میں ظلم و ستم دراصل انسانی حقوق کے علمبرداروں کے منہ پر طمانچے ہیں۔