تحریر : محمد ارشد قریشی پی ایس 114 سندھ اسمبلی کی وہ نشست ہے جو کافی عرصہ سے متنازع رہی ہے 2013 کے الیکشن میں اس حلقے سے مسلم لیگ نون کے عرفان اللہ مروت 37130 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے تھے جبکہ ایم کیو ایم کے عبدلرؤف صدیقی 30305 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر تھے لیکن ایم کیوایم کی جانب سے نتیجے کو عدالت میں چیلنج کردیا گیا اور عدالت کی جانب سے دوبارہ گنتی کا حکم دیا گیا جس کے نتیجے میں عرفان اللہ مروت کو الیکشن کمیشن نے نااہل قرار دیتے ہوئے اس نشست پر ضمنی الیکشن کا اعلان کیا، الیکشن کا اعلان ہوتے ہیں سیاسی جماعتوں نے کمر کس لی ایک لاکھ 93 ہزار ووٹرز پر مشتمل اس حلقے سے 27 امیدواروں نے الیکشن میں حصہ لیا اور کم و بیش سب کا ہی دعوی تھا کہ اس مرتبہ وہ یہ نشست جیتنے میں کامیاب ہوجائیں گے اس کی سب سے بڑی وجہ کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ایم کیوایم کی تقسیم اور گروپ بندی تھی جو ہر امیدوار کا حوصلہ بلند کر رہی تھی۔
ایم کیو ایم پاکستان جو اپنے بانی کی ایک متنازع تقریر کے بعد ایم کیو ایم لندن سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد اپنے آپ کو سیاسی نظام میں ایڈجسٹ کرنے کی کوشش میں مصروف ہے ایم کیو ایم پاکستان کی لندن سے علیحدگی اور اپنے ہی بانی کے خلاف سندھ اسمبلی میں قرار داد پیش کرنے کے باوجود اب بھی اسے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس امر کے باوجود ایم کیو ایم پاکستان نے اس نشست کے حصول کے لیئے اپنے ایک قدرے نئے ساتھی کامران ٹیسوری کومیدان میں اتارا ایم کیو ایم پاکستان کے یہ واحد امیدوار تھے جو اپنے بانی سے علیحدہ ہونے کے بعد ایم کیو ایم میں شامل کیئے گئے تھے گوکہ ایم کیو ایم پاکستان کو کچھ ہی عرصہ قبل ملیر کی نشست کھونے کا بھی شدت سے احساس تھا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایم کیو ایم پاکستان کی لندن سے علیحدگی کے بعد ہونے والی ضمنی الیکشن نہایت اہمیت کے حامل تھے جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ اپنے بانی سے علیحدگی کے بعد ان کے ووٹرز اورسپوٹرز کا مزاج کیا ہے۔
اس حلقے کی صورت حال اس وقت اور زیادہ دلچسپ ہوگئی جب لندن سے ایم کیوایم کے ندیم نصرت صاحب نے اس نشست پر ہونے والے الیکشن سے دور رہنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے کارکنوں کو گھروں میں رہنے کا مشورہ دیا جبکہ ماضی میں ایم کیوایم سے علیحدہ ہونے اور نئی تنظیم ایم کیو ایم حقیقی کے بانی آفاق احمد نے بھی ایم کیو ایم پاکستان کی حمایت کا اعلان کردیا ساتھ ہی جمعیت علماء اسلام ف اور مفتی نعیم صاحب نے بھی اپنا وزن ایم کیو ایم پاکستان کے پلڑے میں ڈال دیا جب کہ ماضی میں ہونے والے الیکشن میں یہ نشستیں ایم کیو ایم نے بغیر کسی جماعت کے اتحاد اور سپورٹ کے جیتی تھیں،اس تمام تر صورتحال کے باوجود اس حلقے میں پیپلز پارٹی کی پوزیشن تمام جماعتوں سے مضبوط نظر آرہی تھی جس کے پس منظر میں کئی عوامل تھے جس میں سب سے اہم بات گیلپ سروے کے عین مطابق تھی جو انھوں نے مارچ اپریل 2017 کے درمیان کیا تھا جس میں سب سے غیر یقینی سیاسی صورتحال کراچی کی بتائی گئی تھی سروے کے مطابق کراچی پر اٹھائیس سال سے اپنی مضبوط گرفت رکھنے والی ایم کیو ایم کی حالیہ تقسیم سے اس کے ووٹر اور سپوٹر کنفیوز ہیں کچھ ایم کیوایم میں بننے والے دو گروپوں میں شامل ہوئے لیکن ایک بہت بڑی تعداد مکمل خاموش اور اپنے آپ کو سیاسی سرگرمیوں سے دور رکھے ہوئے ہے۔
اب اگر گیلپ سروے سے ہٹ کر بات کی جائے تو ایم کیو ایم میں گروپ بندی کا بھی سب سے زیادہ فائدہ پاکستان پیپلز پارٹی کو ہی ہوا جس کو بڑی تعداد میں ایم کیوایم کے سپوٹرزکے ووٹ ملے یہاں یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ اگر ماضی میں دیکھا جائے تو ایم کیوایم کے وجود میں آنے سے پہلے کراچی میں اردو بولنے والوں کی اکثریت پاکستان پیپلز پارٹی کو ہی سپورٹ کرتی تھی شائید یہی وجہ تھی کہ ایم کیو ایم میں گروپ بندیوں سے بدظن اردو بولنے والوں کے لیئے کراچی کا اردو بولنے والا سعید غنی ایک بہترین آپشن تھا جسے اس حلقے کے لوگ1972 میں ان کی پیدائش ہی سے جانتے ہیں یا پھر ان کے والد عثمان غنی جو پیپلز پارٹی کے سرگرم رکن تھے ان کی اچانک موت کے بعد میں ایم سی بی کی اسٹاف یونین میں جنرل سیکریٹری کے عہدے سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کرنے والے سعید غنی سے واقف تھے اور یہ بھی محض اتفاق ہے کہ 1997 کو پاکستان پیپلز پارٹی نے سعید غنی کو پی ایس 114 حلقے کا صدر مقرر کیا تھا۔
ملیر کی نشست ہارنے کے بعد ایم کیوایم پاکستان نے اس حلقے میں اپنی بہت زیادہ توجہ مرکوز رکھی تھی کیوں کہ فاروق ستار جانتے تھے کہ یہ نشست ہی فیصلہ کرے گی کہ ایم کیو ایم اپنے بانی کے بغیر بھی ماضی کی طرح کامیابی حاصل کرسکتی ہے یا نہیں اور ان کے سیاسی مخالفین جو مطالبہ کرتے ہیں کہ ایم کیو ایم پاکستان کے پاس ایم کیو ایم کے بانی کے نام پر حاصل کردہ مینڈیٹ ہے لہذا ایم کیو ایم پاکستان کے تمام قومی اور صوبائی اسمبیہ ممبران مستفی ہوکر نیا مینڈیٹ لیں شائید فاروق ستار پی ایس 114 کی نشست جیتنے کے بعد اس مطالبے پر اپنے مخالفین کو کرارا جواب دیتے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ بات ایک حدتک ان کے مخالفین کی ہی درست ثابت ہوئی، جو صورتحال سامنے آئی ہے کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم کے بانی کا سحر اب بھی قائم ہے جس کا اندازہ پی ایس 114 کے حلقے میں ٹرن آؤٹ سے لگایا جاسکتا ہے اتوار کا دن موسم خوشگوار ہونے کے باوجود اردو بولنے والے حلقوں میں لوگوں کی مایوس کن تعداد ووٹ ڈالتے نظر آئی۔ اگر موجودہ صورتحال ائیندہ آنے والے عام انتخابات تک برقرار رہی تو شائید کراچی کے کئی ایسے حلقے جو ہمیشہ سے ایم کیو ایم کے رہے اور ان نشستوں پر ایم کیو ایم نے تن تنہا کئی سیاسی اتحادوں کو چیلنج کیا اور بھاری اکثریت سے نشستیں جیتیں اب وہ نشستیں پاکستان پیپلز پارٹی کے ہاتھوں میں چلی جائیں۔