تحریر: سید انور محمود لندن جہاں بانی ایم کیو ایم الطاف حسین 25 سال سے زیادہ عرصہ سے مقیم ہیں اور اب پاکستان میں اردو بولنے والوں (مہاجروں) کے دشمن بنے ہوئے ہیں، 22 اگست 2016 کو وہ پاکستان، پاکستانی اداروں اور اداروں کے سربراہوں کے خلاف زہر اگل چکے ہیں، الطاف حسین ہوں یا کوئی اور جو بھی پاکستان مردہ باد کے نعرئے لگائے گا وہ غدار کہلائے گا، اس لیے الطاف حسین ایک پاکستانی ہونے کا حق کھو چکے ہیں، ویسے بھی ایک عرصے سے وہ برطانوی شہری ہیں۔ میرئے والدین نے پاکستان مردہ باد کہنے کے لیے پاکستان بنانے کی جدوجہد نہیں کی تھی اور نہ ہی اس لیےہجرت کی تھی کہ وہ پاکستان کو ایک ناسور کہیں۔ یقیناً الطاف حسین کے والدین نے بھی ایسا ہی کیا ہوگا، یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اگر ان کو پاکستان مردہ باد ہی کہنا ہوتا تو وہ پاکستان نہ آتے۔9 جولائی 2017 کو کراچی کے ایک صوبائی حلقےپی ایس 114 کی نشست کے ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی کے امیدوار سینیٹر سعید غنی کی کامیابی اور ایم کیو ایم (پاکستان) کے امیدوار کامران ٹسوری کی ہار الطاف حسین کو بہت بہت مبارک ہو۔ میں الطاف حسین کو مبارکباد اس لیے دئے رہا ہوں کہ 3 جولائی 2017کو ایم کیو ایم(لندن) نے پی ایس 114 کراچی کے ضمنی انتخابات کیلئے پیپلز پارٹی کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ یہ اعلان ایم کیو ایم لندن نے الطاف حسین کی ہدایت پر جاری کیا تھا۔ انتخابات سے ایک روز پہلے ایم کیو ایم (پاکستان) کے امیدوار کی بہتر پوزیشن دیکھتے ہوئے ایم کیوایم (لندن) کے کنوینر ندیم نصرت نے ایک بیان میں کراچی کےعوام سے کہا کہ وہ پی ایس 114کےضمنی انتخاب کامکمل بائیکاٹ کریں، شاید اس بیان کے لیے بھی الطاف حسین نے حکم دیا ہو۔ کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھی جس میں الطاف حسین ایم کیو ایم (پاکستان) کے سربراہ فاروق ستار اور سابق ناظم کراچی مصطفی کمال کو گالیوں سے نواز رہے تھے اور ساتھ ہی اپنے احسانات کا ذکر بھی کررہے تھے، ایسا پہلی بار نہیں ہوا ، الطاف حسین اس سے پہلے عظیم طارق اور ڈاکٹر عمران فاروق کے علاوہ اپنے بہت سے ساتھیوں کے ساتھ ایسا سلوک کرچکے ہیں۔
حلقہ پی ایس 114سے 2013 کے انتخابات میں جلدہی جلدہی سیاسی وفاداریاں بدلنے والے عرفان اللہ مروت مسلم لیگ(ن) کے امیدوار تھے جنہوں نے 37ہزار 130ووٹ حاصل کئے تھےاورکامیاب قرار پائے تھے،دوسرے نمبر پر ایم کیو ایم کے روف صدیقی نے 32 ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔عرفان اللہ مروت کی کامیابی کو رؤف صدیقی نے چیلنج کیا تھا، الیکشن ٹربیونل نے روف صدیقی کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے پی ایس 114 میں دوبارہ انتخابات کرانے کا احکامات دیئے تھے۔9 جولائی 2017کو اس حلقہ میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 93ہزار 806 تھی، 58 ہزار 134 ووٹ ڈالے گئے، جن میں سے 413 ووٹ مسترد ہو گئے، یعنی 33.33 فیصد ووٹرز نے اپنا حق راے دہی استمال کیا ۔ اس مرتبہ کل ستائیس امیدواروں نے اس ضمنی انتخاب میں حصہ لیا تھا لیکن بنیادی مقابلہ شروع سے ہی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم (پاکستان) کے درمیان تھا۔ اس مرتبہ اس نشست پر کامیابی پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار سینیٹر سعید غنی کے حصے میں آئی انہوں نے 23 ہزار 797 ووٹ حاصل کئے، ان کے مدمقابل ایم کیو ایم (پاکستان) کے امیدوار کامران ٹیسوری 18ہزار 106 ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر رہے ۔ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار علی اکبر گجر تیسرئے نمبر پر رہےجبکہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے امیدواروں کے علاوہ دیگر امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے پہلی بار پی ایس 114 کی نشست جیتی ہے، 2013 کے انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدوار سجاد احمد کو اس نشست سے صرف 3827 ووٹ ملے تھے۔ ایم کیو ایم (پاکستان) کا اس نشست پرہارنے کی وجہ اس کا اپنا اندرونی خلفشار ہے، جس کے زمہ دار بانی ایم کیو ایم الطاف حسین ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ ان انتخابات کی طرف دیکھتی کیونکہ اس وقت پاناما پیپرز لیکس کے الزامات سے بچنا ان کا اولین مقصد ہے، لہذا پی ایس 114 کی نشست کی جیت یا ہار سے ان کو کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ پوری انتخابی مہم مسلم لیگ (ن) کی مقامی قیادت نے چلائی جن کی صورتوں سے بھی کراچی کے لوگ نا واقف ہیں۔ 2013 کے انتخابات میں کراچی سے 8 لاکھ ووٹ حاصل کرنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو بھی کراچی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، 2013 میں اس جماعت کو جو مقبولیت حاصل تھی وہ اب نہیں ہے ، 2013کے انتخاب میں دھاندلی سے کامیاب ہونے والا عرفان اللہ مروت اب تحریک انصاف میں شامل ہوچکا ہے۔ حسب دستور جماعت اسلامی اپنی ضمانت ضبط کرواکر پانچویں نمبر پر آئی ہے، مذہب کا چورن بیچنے والی جماعت اسلامی کی یہ تاریخ رہی ہے کہ یہ عام انتخابات میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوئی ہے، البتہ ڈکٹیٹروں کی حکومتوں میں ضرورشامل رہی ہے۔ کراچی کے عوام کی اکثریت لبرل ہے، لہذا اس جماعت کےامیدوار صرف ہارتے ہی نہیں ہیں بلکہ ان کی ضمانتیں بھی ضبط ہوجاتی ہیں۔ دوسری طرف ایم کیوایم (لندن) کے کنوینر ندیم نصرت کی آنکھوں اور دماغ کا علاج ہونا بھی بہت ضروری ہے جو یہ کہہ رہے ہیں کہ ایم کیو ایم (پاکستان) کو ملنے والے 18ہزار ووٹ فراڈ ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پی ایس 114 کے ضمنی انتخاب میں ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا، لوگ گھروں سے ووٹ ڈالنے کے لیے نہیں نکلے۔
پیپلز پارٹی سندھ میں 2008 سے مستقل حکومت کررہی ہے، پارٹی کے دونوں ادوار میں کرپشن اور ناقص کارکردگی کی وجہ سےسندھ بہت پیچھے چلاگیا جبکہ کراچی کھنڈرات میں بدل رہا ہے ، کراچی کے عوام یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں لیکن چونکہ ایم کیو ایم چار گروپ میں بٹنے کے بعد اپنی اصل طاقت کھوچکی ہے اور ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کا انتخابات میں پیپلز پارٹی کی حمایت کرنا پیپلز پارٹی کو بھرپور سیاسی آکسیجن مہیا کرنا تھا ، جوپیپلز پارٹی کی کامیابی کا سبب بنا، کہا جاسکتا ہے کہ یہ کامیابی الطاف حسین کی بھی ہے۔ ایم کیو ایم کے بانی نے 22 اگست 2016 کو پاکستان پر حملہ کیا تھا، اس کے بعد وہ مستقل ایم کیو ایم (پاکستان) پر حملہ کررہے ہیں۔ وقتی طور پر لوگ انتشار کا شکار ہوگئے تھے لیکن آہستہ آہستہ ایم کیو ایم کے حامیوں نے لندن میں موجود الطاف حسین سے ایم کیو ایم (پاکستان) کی علیحدگی کے اقدام کو درست تسلیم کرلیا ہے۔ ایم کیو ایم (لندن) نے جو بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا، اس کا کوئی خاص اثر نہ پڑا اور پی ایس 114 کے حلقہ کے اردو بولنے والوں نے انتخاب میں بھرپور شرکت کی۔
الطاف حسین کی22 اگست 2016کی تقریر سے جو سیاسی خلا پیدا ہونے کا خدشہ تھا، وہ پیدا نہیں ہوا اور ایم کیو ایم فاروق ستار کی قیادت میں متحد ہے۔امید ہے ایم کیو ایم (پاکستان) کے سربراہ فاروق ستار ان غلطیوں کو نہیں دہرایں گے جو الطاف حسین کرتے رہے ہیں اور2018 کے انتخابات میں ایم کیو ایم (پاکستان) ان کی قیادت میں ویسے ہی کامیابی حاصل کرئے گئی جیسے وہ ماضی میں کرتی رہی ہے۔