تحریر : حفیظ خٹک سندھ اسمبلی میں شہر قائد کی اک نشست پی ایس 114 پر ضمنی انتخاب 9 جولائی کے ہوئے جس میں پیپلز پارٹی کے امیدوار سینیٹر سعید غنی نے کامیابی حاصل کی۔ سعید غنی اک مزدور رہنما عثمان غنی کا بیٹا جنہیں ماضی میں مزدور کیلئے جدوجہد کرنے کی پاداش میں راستے سے ہٹادیا گیا تھا۔ عثمان غنی شہید، جن کے مثبت کردار کے معترف ان کے محالفین تک ہیں۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے ساری زندگی مزدوروں کیلئے آواز اٹھائی اور اس مسلسل جدودجہد کے ہی نتیجے میں انہیں مزدور دشمنوں نے اپنی راہ اور اپنے مفاد کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے شہید کردیا تھا ۔ سعید غنی انہی مزدور رہنما کا چشم و چراغ ہیں ۔ انہوں نے بھی اپنے والد کے حق و صداقت کے راستوں پر چلتے ہوئے انسانیت کی خدمت کی راہ اختیار کی ۔ سینٹ کی نشست کا خصول کبھی بھی ان کا مقصد نہیں رہا تاہم یہ پیپلز پارٹی کی تاریخ ہے کہ وہ اپنے شہداء کے ورثاء کو ہمیشہ سرآنکھوں پر رکھتے ہیں ۔ بانی پیپلزپارٹی سے لے کر افضال ڈالمیا تک اور ان کے بھی بعد سے آج تلک اس جماعت کے رہنما اپنے شہداء کے ورثاء کیلئے خوب سے خوب تر کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے کسی بھی عہدے کیلئے ، صوبائی و قومی اسمبلی کیلئے نشست کیلئے سعید غنی کبھی کوشاں نہیں رہے ۔ شہر قائد میں رہتے ہوئے انہوںنے علاقائی سطح پر اپنی جماعت کے پلیٹ فارم سے عوام کے کاموں میں وقت کو گذارا ہے ۔ ان کے جذبہ خدمت کو مدنظر رکھتے ہوئے جماعت کی قیادت نے انہیں سینٹر بنایا اور صوبائی اسمبلی کی اس نشست کیلئے ان ہی کا چنائو کیا ۔ ماضی میں یہ نشست حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے عرفان مروت کی تھی ، اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ گمان غالب رہتا ہے کہ صوبائی اسمبلی کی یہ نشست عرفان مروت کی سبکدوشی کے بعد بھی ان کی ہی جماعت کی رہنی چاہئے تھی لیکن حلقے کے عوام نے جب دیکھا کہ اس نشست پر وہیں کا مقیم سعید غنی کھڑا ہے تو عرفان مروت کے حمایت یافتہ اور تحریک انصاف کے سینئر رہنما سمیت مسلم لیگ (ن) کے رہنما علی اکبر گجر تک کو عوام نے ووٹ نہیں دیئے اور صرف سعید غنی کو ووٹ دیکر صوبائی اسمبلی تک پہنچایا ۔ اس کا یہ چنائو اس امید سے بھی ہے کہ اس حلقے کے مسائل کو حل کرنے میں اب حقیقی انداز میں اقدامات ہونگے ۔ لہذا اس نقطہ نظر سے اب سعید غنی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے والد کی روایات کو اور اس کے ساتھ ہی اپنی جماعت کے شہداء کی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے بہتر انداز میں عوام کی خدمت کریں ۔ یہ نشست اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ یہ کوئی پیپلز پارٹی کی روایتی نشست نہیں جس طرح لیاری کی نشست ہے ۔ وہاں کا تو معاملہ یہ ہے کہ عوام کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ اس نشست پر کھڑے پیپلز پارٹی کے امیدوار کا نام کیا ہے لیکن وہ پیپلز پارٹی کے تیر کے نشان کو دیکھتے ہیں اور اس پر ووٹ کے ٹھپے لگاتے چلے جاتے ہیں اور وہاں کا رکن لیاری کے عوام کی کوئی خدمت کئے بغیر صرف وقت کو گذارتے چلے جاتے ہیں ۔ اس لحاظ سے پیپلز پارٹی کو شہر قائد کے اندراگر یہ نشست پہلی بار ملی ہے تو سعید غنی کی یہ بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ عملی خدمات کریں ۔ ان کے اس عمل سے ان کی اپنی ریت کے ساتھ ان کی جماعت کی صورتحال بھی مثبت انداز میں بہتر ہوگی اور اس پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔
ضمنی انتخابات سندھ اسمبلی سمیت ملک بھر کی وقتا فوقتا ہوتے رہے ہیں تاہم کسی بھی نشست پر اتنی سرگرمی اور اس قدر گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا ہے جس قدر یہاں دیکھنے میں آیا ۔ تحریک انصاف ، جماعت اسلامی ، متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کے مرکزی رہنمائوں نے اس حلقے کو جیتنے کیلئے دورے کئے ۔ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کا معاملہ چونکہ جے آئی ٹی کے معاملات سے دوچار تھا اور ان کے قائد جماعت سے لے کر اک کارکن تک ذہنی طور پر اس معاملے میں الجھے ہوئے تھے اس وجہ سے علی اکبر گجر کو وہ پذیرائی نہیں مل پائی جس کے وہ جماعتی سطح پر حقدار تھے ۔ عمران خان سمیت ان کی جماعت کے دیگر مرکزی رہنمائوں نے اپنے امیدوار نجیب ہارون کی ماضی میں تحریک کیلئے قربانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی بھرپور انداز میں حمایت کی ، ان کے ساتھ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان بھی کامران ٹیسوری کی حمایت میں لگے رہے لیکن اس جماعت پر بھی ان دنوں ان کی اپنی کارکردگی کے باعث بے چینی و بے اطمینانی کا عنصر غالب رہا جس کی وجہ سے وہ بھی اپنی روایتوں کے مطابق کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکے ۔ اس کے باوجود بھی ان کے امیدوار کو عوام نے 18ہزار سے زائد ووٹ دیئے ۔ جماعت اسلامی کا امیدوار مقابلے کے میدان میں رہا ضرور ہے تاہم انہیں بھی نہایت ہی کم ووٹ ملے ۔ عوام تو یہ سوالات بھی کرتے رہے کہ جب جماعت اسلامی اور تحریک انصا ف کی مشترکہ حکومت خیبر پختونخواہ میں برسوں سے عوامی خدمت کررہی ہے تو کیونکر اس حلقے میں دونوں جماعتوں نے مشترکہ طور پر ایک امیدوار پر اتفاق کیوں نہیں کیا ؟ جماعت اسلامی زہر قائد میں ویسے بھی اک متحرک جماعت کی حیثیت رکھتی ہے ، بجلی کے حالیہ مسائل سے متعلق سے لے کر متعدد عوامی مسائل پر اس جماعت کے رہنما اور کارکنا ن سرگرم عزائم کے ساتھ متحرک رہتے ہیں لیکن اس حلقے میں انہیں جس انداز میں ووٹ دیئے گئے ہیں ان پر جماعت کے اپنے کارکنا ن و رہنما ئوں کیلئے یہ نقطہ قابل فکر ہے۔
ماہ جولائی رونما ہونے والے واقعات کے سبب اب اہمیت اختیار کرچکا ہے اور مستقبل میں اس ماہ کو نہایت اہمیت بھری نظروں سے دیکھا ، لکھا اور پڑھا جائیگا ۔ اسی ماہ جولائی کی 5تاریخ کو پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کی دی جانے والی پھانسی کے سبب یوم سیاہ کے طور پر مناتی ہے۔ اسی ماہ کی 8جولائی کو محسن انسانیت اور خدائی خدمت گار عبدالستا ر ایدھی کی زندگی ختم ہوئی ۔ اور اسی میں کی 6جولائی کو پاک فوج کے بہادر جانباز کو بہادری کے عیوض تمغہ شہادت سے نوازا گیا ۔ کشمیر ی عوام کے دلوں کی دھڑکن اور کشمیر کی آزادی کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے برہان وانی کو بھی بھارتی فوج نے 8جولائی کو ہی شہید کیا تھا۔ ان کی شہادت کو پوری کشمیری عوام ہی نہیں پورے وطن عزیز میں اور اس سے بھی برھ کر پوری دنیا میں اس عزم کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ ان کے سفر کو جاری اور انجام تک پہنچایا جائے گا اور اس راہ میں کسی بھی قربانی سے گھبرایا نہیں جائیگا۔ دفاع پاکستان کونسل نے تو اس ماہ کو کشمیر کے سفر آزادی کو تقویت پہنچانے کیلئے مزید اقدامات کئے ہیں جنہیں مدتوں یاد ہی نہیں بلکہ مثبت انداز میں سامنے رکھا جائیگا۔ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا یوم وفات بھی اسی ماہ میں ہے اور ہر سال 9جولائی کو ان کی برسی کے ان کی خدمات کو یاد کر لیا جاتا ہے۔
Election
فاطمہ جناح نے اپنے بھائی اور قائد اعظم کے ساتھ مل کر جو خدمت اس ملک کیلئے سرانجام دیں انہیں بھی مورخ کبھی نہیں بھلا پائیں گے۔ اس کے ساتھ سعید غنی کیلئے یہ ماہ اک سیاسی سفر کا سنگ میل ثابت ہوا اور اہمیت کی حامل نشست پر انہیں کامیابی حاصل ہوئی۔ لہذا اس ماہ کو وہ بھی ،کبھی فراموش نہیں کرسکیں گے۔ اس کے ساتھ ہی تحریک انصاف کے سربراہ نے جو سفر حکمران جماعت کے خلاف اک مدت سے شروع کر رکھا تھا اس سفر کا ہی اک یہ حصہ تھا کہ نواز شریف کے خلاف جاری جے آئی ٹی رپورٹ 10جولائی کو جمع کرائی گئی ۔ اس رپورٹ کے دوران سے جمع کرائے جانے تک پوری قوم کی نظریں اس پر جمی رہیں اور یہ نظریں فیصلہ آنے تک جمی رہیں گی۔ سپریم کورٹ نے اس حوالے سے فیصلہ بھی اسی ماہ میں کرنا ہے جس سے اس ماہ کی قدر میں مزید اضافہ ہوگا۔ ضرورت اس مر کی ہے کہ سعید غنی عملی سیاست و خدمت کا مظاہر ہ کریں اور صوبائی حلقے کی نشست جیتنے کے بعد وہاں کی عوام کی بے لوث خدمت کریں ۔ ان کے مسائل حل کریں اور زیادہ سے زیادہ عوام کو آسانیاں پہنچانے کی کوشش کریں ۔ ایسا کرنے سے آج اگر وہ صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں تو مستقبل میں وہ قومی اسمبلی کے رکن بھی منتحب ہوسکتے ہیں اور یہ سفر یہیں پر ختم نہیں ہوگا بلکہ اور بھی بڑھے گا۔۔