تحریر : ڈاکٹر ریحان غنی، پٹنہ بہار میں اردو کے امکانات تو اس وقت سے ہی روشن ہو گئے تھے جب اردووالوں کی تیس برسوں کی مسلسل جدوجہد کے نتیجہ میں 17 اپریل1981 کو پہلے مرحلہ میں متحدہ بہار کے 15اضلاع پورنیہ، کٹیہار، دربھنگہ، سیتامڑھی، بھاگلپور، مدھوبنی، بیگوسرائے، مظفر پور، سہرسہ، مشرقی چمپارن، نوادہ، مغربی چمپارن، دھنباد، گیا اور سمستی پور میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہوا اور اردو روزگار سے جڑ گئی۔ یہ اردو کو سرکاری مراعات دلانے کے لیے اردو والو ں کی طرف سے چلائی گئی تحریک کی زبردست کامیابی تھی۔ اس کے بعد حکومت نے دوسرے مرحلہ میں 27جون1989 کو متحدہ بہار کے گیارہ اضلاع اورنگ آباد، پٹنہ، بہار شریف، گڈہ، دیوگھر، صاحب گنج، گریڈیہہ، مونگیر، کھگڑیا، لوہردگا اور ویشالی اور 16 اگست 1989 کو تیسرے مرحلہ میں 13 اضلاع سیوان، ہزاری باغ، گملا، پلاموں، رہتاس ، دمکا، گوپال گنج، رانچی، سنگھ بھوم ، سارن ، جہان آباد اور مدھے پورہ میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ ملا۔ اس طرح تین مرحلے میں متحدہ بہار میں اردو کو سرکاری مراعات حاصل ہو گئیں۔
پوری ریاست میں اردو کے نفاذ کا عمل شروع ہو گیا اور بڑے پیمانے پر اردو ملازمین کا تقرر ہوا۔ یہ سب کام حکومت کے محکمہ راج بھاشا کے تحت کیے گئے۔ آج بہار میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہوئے۔ چھتیس برس گزر چکے ہیں۔ اس دوران اردو کی قیادت کمزور ہو گئی اور عوامی سطح پر اردو تحریک کا خاتمہ ہو گیا۔ اردو کے جتنے اکابر تھے ہم سے جدا ہوتے چلے گئے۔ الحاج غلام سرور، پروفیسر عبد المغنی، مولانابیتاب صدیقی، شاہ مشتاق احمد، کامریڈ تقی رحیم، کلیان کمار پوددار، رامائن سنگھ اور قمر اعظم ہاشمی جیسے درجنوں اکابر اردو کے انتقال سے اردو تحریک کو مسلسل جھٹکا لگتا رہا۔ عوامی سطح پر اردو کے لیے جو ”دبائو دستہ” بنا تھا وہ ٹوٹ کر بکھر گیا۔ اردو بیچاری ہو گئی۔ حالانکہ اردو کے نام پر جو ادارے پہلے سے کام کر رہے تھے وہ سب موجود تھے۔ اگر کمی تھی تو قیادت کی۔اس دوران ‘کاروانِ ادب’حاجی پور کے زیر اہتمام پروفیسر ممتاز احمد خاں اور انوار الحسن وسطوی نے اردو کا پرچم بلند رکھا، اردو تحریک کے فعال کارکن ڈاکٹر اسلم جاویداں نے ”اردو کونسل” کی داغ بیل ڈال کر اس کڑی کو جوڑنے کی کوشش کی لیکن اردو والوں کی طرف سے انہیں خاطر خواہ تعاون نہیں ملا۔ اس کے بعد محمد کمال الظفر کی قیادت میں ایک تنظیم ”تحریک اردو بہار” کی بنیاد رکھی گئی۔
اس تنظیم میں بحیثیت جنرل سکریٹری میں بھی شامل تھا لیکن اس تحریک کو بھی عوامی سطح پر جو تعاون ملنا چاہیے تھا اسے نہیں ملا۔ یہ تینوں ادارے آج بھی زندہ ہیں اور اردو والوں کے طرز عمل اوراُن کی بے حسی پر ماتم کر رہے ہیں۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ چھتیس برسوں کے دوران عوامی سطح پر اردو والوں کی جو دیوانگی تھی وہ ختم ہو گئی۔ وہیں ایک خوش آئند بات یہ ہوئی کہ اردو ڈائرکٹوریٹ کو نہ صرف مالی اختیارات مل گئے بلکہ بہار ایڈمنسٹریٹیو کے ایک فعال افسر محترم امتیاز احمد کریمی اس کے ڈائرکٹر بنا دئیے گئے۔ چونکہ وہ عرصہ تک اردو اکادمی کے سکریٹری کی حیثیت سے بھی کام کر چکے تھے اس لیے انہیں اردو زبان و ادب کے فروغ کے تعلق سے کام کرنے کا تجربہ حاصل ہو گیا تھا۔ انہوں نے اپنے اس تجربے سے فائدہ اٹھایا اور اردو ڈائرکٹوریٹ کی سرگرمیوں کو ضلع اور بلاک تک وسعت دے دی۔ اردو تربیتی پروگرام شروع کیے گئے۔ اردو سے تعلق رکھنے والی عظیم شخصیتوں کے یومِ پیدائش اور یوم وفات پر تقریبات منعقد کی جانے لگیں۔ پہلے مرحلہ میں یعنی ابتداء میں صرف چار شخصیتوں شاد عظیم آبادی، رمز عظیم آبادی، شکیلہ اختر اور کلام حیدری کے تعلق سے تقریبات منعقد کی جاتی تھیں۔ پھر ان شخصیتوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا ۔ اب اردو ڈائرکٹوریٹ نے20 شخصیتوں کی یاد میں تقریبات منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس وقت اردو ڈائرکٹوریٹ اردو کے فروغ کے سلسلہ میں آٹھ منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ جن میں سب سے اہم منصوبہ ضلعی اور ریاستی فروغِ اردو منصوبہ ہے۔
اس کے تحت اردو ڈائرکٹوریٹ اردو زبان و ادب کو فروغ دینے اور پوری ریاست میں پھیلے اردو ملازمین کی صلاحیت سازی کے لیے ریاستی اور ضلعی سطح پر سمینار، اردو عمل گاہوں اور مشاعروں کا انعقاد وقتاً فوقتاً کرتا ہے۔ گزشتہ مالی سال یعنی 2016-17 میں اُس نے اردو کے فروغ کے سلسلہ میں منعقد کیے گئے مختلف پروگرام میں نئی نسل اور طلبہ و طالبات کوجوڑنے کی جو پہل کی ہے اُس سے پوری ریاست میں اردو کے حق میں زبردست فضا بندی ہوئی ہے اور نئی نسل کواردو سے دلچسپی بھی بڑھی ہے۔ اب سرکاری سطح پر ہر ضلع اور بلاک میں اردو کا پرچم لہرا رہا ہے۔ اس طرح عوامی سطح پر اردو کی جو تحریک عرصہ ہوا دم توڑ چکی تھی وہ اب سرکاری سطح پر پروان چڑھ رہی ہے اور ا س کے مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس دوران ایک بڑا کام یہ ہوا کہ ریاستی حکومت نے اردو مشاورتی کمیٹی کی تشکیل کر کے اس کی کمان محترم شفیع مشہدی کے سپرد کر دی اور کمیٹی میں فعال اور سرگرم اراکین کو بھی نامزد کیا۔ اس طرح محترم امتیاز احمد کریمی کو ایک اور مضبوط ہاتھ مل گیا۔ اردو کے وہ سپاہی (اردو ملازمین) جو اضلاع اور بلاکوں کے بیرکوں میں بیٹھے اپنی مرضی سے جو سمجھ میں آ رہا تھا کر رہے تھے وہ سب کے سب بیرکوں سے باہر نکل آئے اور اپنے کمانڈر کے حکم پر اردو کے فروغ کے لیے سرگرم عمل ہو گئے۔
جشن اردو ہو یا ضلع اور بلاکوں میں سمینار اور اردو عمل گاہوں کا انعقاد سب جگہ اردو ملازمین کی موجودگی اور ان کی سرگرم شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ اردو ملازمین پر اردو کے لیے کام نہ کرنے کا جو الزام لگایا جا رہا تھا وہ غلط تھا۔ وہ کل بھی اردو کے تعلق سے کام کرنے کے لیے تیار بیٹھے تھے اور آج بھی تیار ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان سے کام لینے والا کوئی نہیں تھا۔ اردو کے سپاہیوں( اردو ملازمین) کو بیرکوں سے میدان عمل میں لانے کا سہرا بلاشبہ ڈائرکٹر اردو محترم امتیاز احمد کریمی کے سر جاتا ہے۔ پوری ریاست میں پھیلے ہوئے اردو کے ملازمین اردو کی طاقت ہیں۔ ان میں کئی ملازمین تو ایسے تھے اور ہیں جو قیادت کے فقدان کے باوجود اپنی بساط بھر اردو کے فروغ کے لیے کام کرتے رہے۔اس سرگرمی کے لیے انہیں پریشانیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ان میں نمایاں نام حبیب مرشد خان اور ڈاکٹر اسلم جاویداں کا ہے۔ سیتامڑھی کے کالو بابو(اردو ٹرانسلیٹر) بھی اردو کے مضبوط سپاہی تھے۔ انہوں نے بھی اردو کے فروغ کے لیے کافی کوششیں کیں ۔ انہیں بھی اردو کا کمانڈر نہیں ہونے کا ملال تھا لیکن جب اردو کا کمانڈر آ گیا تو وہ دنیا میں نہیں رہے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔
اردو ڈائرکٹوریٹ کے ڈائرکٹر محترم امتیاز احمد کریمی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اردو کے فروغ کے لیے جو منصوبے بناتے ہیں ان پر پوری ایمانداری کے ساتھ عمل بھی کرتے ہیں۔ ان کے کام میں نفاست ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اردو ”لکیر کی فقیر” نہیں بنی رہے بلکہ ظاہری اور باطنی طور پر ا س کا معیار بھی اعلیٰ اور عمدہ ہے۔ زبان پر غربت نہیں ٹپکے۔ وہ پھلتی پھولتی اور چہکتی نظر آئے۔ جب لوگ اردو کی تقریبات کے دعوت نامے دیکھیں اور اردو کے لیے خوبصورتی کے ساتھ سجائے گئے ڈائس کو دیکھیں تو ان کی زبان سے بے ساختہ”واہ” نکلے۔ اس پس منظر میں اردو ڈائرکٹوریٹ جو کام کر رہا ہے اُس سے بہار میں سرکاری سطح پر اردو کے فروغ کے امکانات روشن ہیں۔اردو ڈائرکٹوریٹ اردو کے فروغ کے سلسلے میں جن آٹھ منصوبے پر کام کر رہا ہے وہ سب کے سب اس بات کے اشارے ہیں کہ سرکاری سطح پر آج اردو پوری طرح نمایاں ہے۔ پٹنہ کے مختلف تھانوں میں خوشخط اردو نظر آ رہی ہے۔ مختلف سرکاری دفاترمیں بھی اردو کو اب جگہ مل رہی ہے۔ کچھ کمیاں ہیں مثلاًبڑی سرکاری تقریبات میں صرف ہندی کے بینر رہتے ہیں، اردو کہیں نظر نہیں آتی۔ اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اردو ڈائرکٹوریٹ نے اردو کے فروغ کے سلسلہ میں جو منصوبے بنائے ہیں اس کے نفاذ میں اردو والے اردو ڈائرکٹوریٹ کے ساتھ تعاون کرتے ہیں یا اُس کے کام میں کیڑے نکال کر اپنا وقت برباد کرتے ہیں۔