تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری حادثات تو قدرتی طور پر ہوتے ہیں جن سے مفر نہیں مگر کچھ حادثات ایسے بھی یقینی طور پر ہوتے ہیں جن کو خود بھی کرڈالا جاتا ہے کم محنت سے زیادہ مال بنائو غلیظ ذہن ایسے واقعات کا ذمہ دار ہوتا ہے احمد پور شرقیہ کے دل سوز واقعہ پر جس میں تیل کا ٹینکر الٹنے سے سوا دو سو کے قریب افراد جل بھن کر جان آفرین کو خدا کے سپرد کر گئے اور ان سے بھی زائد اب بھی پنجاب بھر کے ہسپتالوں میں جان کنی کے عالم میں پڑے ہیں ۔سڑکوں پر چلنے والے ٹرکوں سے چوروں کا اوپر چڑھ کر اور دن دیہاڑے میں خصوصاً رات کے اندھیروں میں گھریلو سامان اور گھی ،صابن ،تیل و دیگر ضروری اشیاء کے کنستر وں کے دبے سڑکوں کی دونوں طرف موجود خصوصی جگہوں کھڈوں میں پھینکتے رہنا اور دیگر چوروں کے ساتھیوں کا پیچھے پیچھے اپنی ویگن ٹرک وغیرہ پر تیزی سے سامان اکٹھا کرتے چلے جانا جیسے واقعات عام ہوتے رہتے ہیں۔
اگر کمپنیوں وغیرہ کا مال ہو تو بھیجنے والے ملازم اور ٹرک ڈرائیور وغیرہ آپس میں ہی ملاپ کرکے لاکھوں روپے کمانے کے لیے ایسی پلاننگ بنالیتے ہیں ۔ایک حقیقت پر مبنی واقعہ ہے کہ ایک کمپنی کے ذمہ دار ملازم نے بھی تیل صابن ،گھی ،ٹوتھ پیسٹ وغیرہ کا ٹرک بھر کرکمپنی کے ڈپو سے نکالا ۔مگر ٹرک کے ڈرائیور سے ساز باز کرکے آدھے سے زائد سامان اگلے کسی آمدہ اسٹاپ پر اتار کر اپنے مخصوص دوکاندار کو بیچ ڈالا اور اس طرح25,30لاکھ کا سامان ہضم کر گئے اور کمپنی کو ٹرک ڈرائیور نے رپورٹ کردی کہ رات کے اندھیرے میں چوروں نے اپنے مخصوص طریقہ واردات سے سامان اتار لیا ہے۔متعلقہ قریبی تھانہ میں رپورٹ درج ہوجائے بس کمپنی کے لیے یہی کافی ہے۔احمد پور شرقیہ کے واقعہ میں بھی کراچی سے تیل کمپنی کا ٹینکر چالیس پچاس ہزار لیٹر تیل بھر کرمختلف دو ر دراز پٹرول پمپوں پر پہنچانے کے لیے جا رہا تھا۔
ٹینکر کے ڈرئیور کے ساتھ کبھی کبھار تو ایک آدھ ہیلپر موجود ہوتا ہے وگرنہ ٹرک ڈرائیور خود ہی ٹینکر لے کر چل پڑتے ہیں ۔چونکہ ایسے تیل بھرے ٹینکر کو انتہائی سست رفتاری سے اپنا سفر طے کرنا ہوتا ہے اس لیے انہیں کراچی سے بہاولپور ملتان یا پشاور تک پہنچنے میں کئی دن بھی لگ سکتے ہیںڈرائیور نے ریسٹ وغیرہ بھی کرنا ہوتا ہے اس لیے عام طور پر ہم دیکھتے رہتے ہیں کہ ایسے ٹرک ٹرالے ٹینکروغیرہ روڈ سائیڈہوٹلوں پر کھڑے ہوتے ہیں ۔اگر ڈرائیور اور ہیلپر مل کر یہ پلان بنالیں کہ راستہ میں ٹینکر سے اتنے ہزار لیٹر کسی واقف پٹرول پمپ والے کو بیچ ڈالنا ہے۔ 20,25 ہزارلیٹر ہی بیچ ڈالیں تو 18,20لاکھ روپے مفت میں کمائی ہوگئی کہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی رنگ چوکھا آوے ویسے ڈرائیوری ہیلپری کرتے تو زندگی گزر جائے گی مگر اتنی رقم تو ایک ہی دفعہ ہاتھ آجائے گی پھر کسی سنسان جگہ پر جہاں سڑک ٹوٹی ہوئی ہو یا ذرا کچی سڑک پر اتارنا پڑ جائے تووہیںاسے با آسانی الٹا یا جاسکتا ہے اب واردات کرنے والے ٹینکر کااوپر والا ڈھکنا جہاں سے تیل کمپنی ڈال کر بھیجتی ہے وہ اصولاً سیل بند ہونا چاہیے صرف جہاں تیل پہنچانا ہے وہیں جا کر اس سیل کو توڑ کر ڈھکن کھولا جاسکتا ہے بے ایمانی کے مرتکبین ٹرک ڈرائیور وغیرہ اسے توڑ ڈالتے ہیں تاکہ جب خود ٹرک کو الٹائیں تو سارا تیل اس میں سے بہہ نکلے اور مٹی ملے تیل کو کوئی کمپنی کا نمائندہ بھی کیسے پیمائش کرسکتا ہے ۔20,30ہزار لیٹر ڈرائیور وغیرہ نے بیچ لیا باقی کا فل ڈرامہ کردیا کہ وہ بہہ نکلا ہے اور اس طرح لاکھوں روپے کسی بھی مشقت کے بغیر حاصل ہوگئے۔
عقل کے اندھوں کو کوئی یہ تو پوچھے کہ تیل تو انتہائی حفاظت کے ساتھ اوپر سے مکمل سیل کرکے لے جایا جارہا ہوتا ہے جسے ٹینکر کے الٹنے پر بھی اس میں سے تیل باہر نہیں نکلنا چاہیے۔اب اس خصوصی پہلو پر تفتیش کی جانی اشد ضروری ہے دیکھا جائے کیا اس جگہ پر سڑک ٹوٹی ہوئی تھی؟ نا ہموار تھی ؟کیا کوئی ٹریفک ساتھ سے گزررہی تھی کہ ٹینکر کو ساتھ گزرتے مشکل آن پڑی جس کمپنی نے پچاس ہزار لیٹر تیل ڈا ل کر ٹینکر کو منزل مقصود پر پہنچانے کے لیے بھیجا ہے اس نے اس کا اوپر والا ڈھکنا کیا سیل کیا تھا کہ نہیں؟ اتنے بھاری بھرکم تیل کے ٹینکر یونہی نہیں الٹ جایا کرتے اگرتیل کے ٹینکر کے الٹنے سے قبل اوپر والا ڈھکنا سیل نہ کیا گیا ہویا سیل توڑ دی گئی ہو تو یہ اس بات کا بین ثبوت ہو گا کہ انہوں نے اسے خود کھولا ہے اور ٹینکر سے تیل کی بھاری مقدار چوری کرکے خود الٹایا ہے عام حالات میں ٹرک ڈرائیورزندہ بچ رہتے ہیں جب وہ خود ایسی واردات کرتے ہیں۔ٹینکروں کی چیکنگ بھی ٹریفک پولیس کا کام ہے کہ وہ اسے مکمل چیک کرکے اس کو اپنا خصوصی سرٹیفکیٹ جاری کریں مگر عام طور پر اس میں چمک کام آتی ہے تھوڑا مال لیکر ہی اور بغیر چیکنگ کیے سرٹیفکیٹ جاری ہوجاتے ہیں اور کئی باردیکھاگیا ہے کہ ٹینکروں سے سڑک پر تیل گرتا جارہا ہوتا ہے اور کسی کو اس کی پرواہ نہیں ہوتی ان سارے کرداروں کی بھرپور تفتیش ہونی چاہیے اورسبھی ذمہ داران پر قتل عمد کے مقدمات درج ہوں اور دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں میںان مقدمات کی سماعت کرکے ملزمان کو جلد ازجلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے تاکہ گزشتہ راصلوٰاةاور آئندہ رااحتیا ط کے طور پرٹریفک پولیس و دیگر ذمہ داران اور تیل کمپنیاں تیل ٹینکروں کو خصوصی طور پر چیکنگ کرکے اور سیل بند کرکے بھجوایا کریں۔
اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر بوسیدہ پرانے ٹینکر یونہی راستہ میں تیل بکھیرتے چلے جائیں گے اور کئی جگہ آگ لگنے سے خونی حادثات رونما ہوسکتے ہیںان پہلوئوں کی گہرائی میں تحقیق و تفتیش کر لی جائے تمام تیل کے ٹینکروں کی چیکنگ بھی ہو تو کئی خفیہ راز کھلیں گے کہ ہمارا انسانی معاشرہ بالکل سرمایہ پرست ہوچکا کہ ہمارے لوگ جعلی گھی ،جعلی دودھ ،جعلی مصالحہ جات ،مشروبات اور ادویات تک تیار کرکے انسانوں کے پیٹوں میں ڈال رہے ہیں تو اس طرح راہ چلتے تیل بیچ کر لاکھوں روپے ہضم کرکے تیل ٹینکر خود کیوں الٹا نہیں سکتے؟ تاکہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری کے مصداق یہ راتوں رات لاکھوں پتی بن جانے کا آسان ترین نسخہ ہے۔فراڈی انتہائی زہین افراد دھوکہ دہی سرمایہ بنانے کے نت نئے طریقے اختیار کرتے ہیں کوئی بعید نہیں کہ یہ نسخہ سیاہ ہی یہاں نہ چلا ڈالا ہو۔