لاہور (جیوڈیسک) چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ کی جانب سے خود پر لگائے گئے الزام کا جواب دے دیا گیا۔ پنجاب انفارمیشن کمیشن نے رجسٹرار ہائیکورٹ سے دو ٹیکسٹائل ملز سے متعلق تفصیلات طلب کیں تھیں۔ رجسٹرار آفس کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ شفافیت پر یقین رکھتے ہوئے چیف جسٹس کی جانب سے معلومات فراہم کی جا رہی ہیں۔
جواب میں بتایا گیا کہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے والد 1984ء سے 1989ء منصور ٹیکسائل اور آج ٹیکسائل کا نظام چلاتے رہے۔ دونوں ٹیکسٹائل ملز عدالتی حکم پر فروخت کی گئیں اور 1990ء میں ملکیت تھرڈ پارٹی کو دے دیا گیا۔2005ء میں دونوں ملز تحلیل کر دیں گئیں، اسکے بعد چیف جسٹس کا کمپنیوں سے تعلق نہ رہا، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ اپنے خاندانی کاروبار میں کبھی سرگرم نہ رہے اور اپنی قانونی تعلیم کو جاری رکھا۔
ایل ایل بی پاس کرنے کے بعد 1989ء میں لوئر کورٹس اور 1991ء ہائیکورٹ کے وکیل بنے، 18 سال بعد بطور وکیل پریکٹس کرنے کے بعد سال 2009ء میں ہائیکورٹ کے جج بنے۔ بطور ہائیکورٹ جج نہ کسی کمپنی کے ڈائریکٹر رہے اور نہ قرضہ لیا۔ چیف جسٹس منصور علی شاہ نے سال 2012ء اپنے چھوٹے بیٹے سید اسمعاعیل علی شاہ کے علاج کیلئے درخواست دی۔ پنجاب ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے بچے کے علاج کیلئے سپیشل میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا۔
بورڈ نے بچے کا علاج بیرون کروانے کی سفارش کی۔ بچے کے بیرون ملک علاج معالج کیلئے چھ اعشاریہ 4 ملین روپے منظور کئے گئے۔ برطانیہ اور امریکہ میں بچے کے علاج پر چار اعشاریہ چار ملین روپے خرچ ہوئے۔ 2012ء میں دو ملین حکومت کے خزانے میں جمع کرا دئیے گئے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے 16-2017 کی انکم ٹیکس ریڑن ہائیکورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کر دی۔ چیف جسٹس منصور علی شاہ نے انکم ٹیکس ریڑن ہائیکورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کر کے احتساب کی نئی مثال قائم کی۔