تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ کیری لوگر بل کی پاکستانی عوام اور پاکستان کی محب وطن پارٹی جماعت اسلامی نے مخالفت کی تھی۔مخالفت ہی نہیں کی تھی بلکہ پورے پاکستان میں مخالفت یا حمایت کے بارے عوامی یفرنڈم بھی کروایا تھا۔ یہ بھی کہا تھا کہ ُاس وقت کی زرداری حکومت کو کیری لوگر بل کے تحت امریکی امداد نہیں لینی چاہیے۔ جماعت اسلامی نے پورے پاکستان میں چیدہ چیدہ جگہ بیلٹ بکس رکھے گئے تھے۔ عوام نے کیری لوگر بل کے تحت امریکی امداد یکسر مسترد کر دی تھی۔ عوام کی رائے کو یکجا کر کے پورے پاکستان سے بیلٹ پیپرز کے پلندے حکومت کو ارسال کیے تھے۔
پاکستان کے عوام نے کیری لوگر بل کے تحت امریکی امداد یکسر مسترد کر دی تھی۔اُس وقت فوج نے بھی کیری لوگر بل کے تحت امداد کو قبول نہیں کیا تھا۔ کیا کہا جائے پاکستان کے حکمرانوں کا کہ ان کی ذاتی خواہشات کے سامنے عوام کی ایک نہ چلی اور کیری لوگر بل کے تحت امداد منظور کر لی۔ اسی دن سے ٧٠سال سے جاری ڈو مور کی نہ رکنی والی گردان کا سلسلہ شروع ہوا جو اب تک ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔اب پھر امریکا کی کانگریس نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ دشمنِ ملت ڈاکٹر شکیل پر سارے مقدمات ختم کیے جائیں ان کو رہا کیا جائے اور افغان طالبان سے امریکا سے مل کر جنگ کی جائے ورنہ پاکستان کی امداد روک دی جائے گی۔ اب اس وقت پاکستان میں کونسا ایسا لیڈر ہو جو کہے کہ ہم گھاس کے جی لیں گے مگر امریکا کی امداد اس شرط پر قبول نہیں کریں گے اپنے غدار کو چھوڑ دیں اور اپنے ملک آزاد کرانے والے افغان طالبان کے ساتھ خوا مخواہ کی لڑائی مول لیں۔ یہ امریکا جانے اور افغان طالبان جانیں۔صاحبو! اس سے قبل ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے امریکا کی ایک ٹیلیفون کا ل پر بغیر اپنے کور کمانڈرز اور ملک کی سیاسی جماعتوں سے مشورے کے سرنڈر کیا تھا۔
امریکا اور ناٹو ٤٨ ملکوں کی فوجوں کو لاجسٹک سپورٹ کے نام پڑوسی برادر مسلمان ملک افغانستان میں داخل ہونے کا راستہ ہموار کیا تھا۔ اس فیصلہ پر تاریخ اسے کبھی بھی معاف نہیںکرے گی۔ یہ اس فیصلہ کی وجہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی نے جنم لیا ہے۔ اس وقت ڈکٹیٹر مشرف کہتا تھا کہ ایسا کر کے میں نے ایٹمی اثاثے بچانے، کشمیر کی جنگ آزادی کی حمایت اور افغانستان میں پاکستان دوست حکومت کی ضمانت پر امریکا کو لاجسٹک سپورٹ کی حامی بھری تھی۔ فوجی دماغ رکھنے والا ڈکٹیٹر کو بین الاقوامی سیاست کی چالبازیوں سے ہر گز واقف نہ تھا اور امریکی کی چال میںپھنس گیا۔ نہ ہمارے ایٹمی اثاثے سے امریکا نے صرف نظر کیا، نہ کشمیر پر پاکستان کی حمایت جاری رکھی اور نہ ہی افغانستان میں پاکستان دوست حکومت قائم ہوئی۔ اس کے بر خلاف امریکا نے بھارت کے ایٹمی اثاثوں کو تقویت پہنچاتے ہوئے اس کے ساتھ نیوکلیئر سپلائر کا معاہدہ کیا بلکہ امریکا کے صدر نے بھارت کو نیو کلیئر سلائرز گروپ میں شامل کرنے کی بھر پور وکالت کی۔بھارت تو پاکستان کے ہمیشہ کے دوست ملک چین کے ویٹو کی وجہ سے ا ب تک نیوکلیئرز سپلائیر گروپ میں شامل نہیں ہو سکا۔ جبکہ امریکا پاکستان کے ساتھ نیو کلیئر سپلائی کا معاہدہ کرنے کے لیے بھی تیار نہیں۔اب دہشت گرد مودی وزیر اعظم بھارت نے امریکا کا دورا کیا تو دورے سے پہلے اس کو خوش کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی مانی اور جانی ہوئی ملکوں کی آزادی کی پالیسی کہ اپنے ملک کو آزاد کرانے والے حیریت پسند ہوتے ہیں دہشت گرد نہیں ہوتے کو ایک طرف رکھتے ہوئے آزادی کشمیر کی پشت بانی کرنے والے سید صلاح الدین کو دہشت گرد قرار دے دیا۔ افغانستان کے اندر پاکستان دوست کی بجائے پاکستان مخالف حکومت قائم ہے۔ پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن سے بھاگے ہوئے بگوڑوں کو افغانستان میں پنا دی ہوئی ہے۔ بھارت نے افغانستان میں پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ درجنوں کونصل خانے قائم کیے ہوئے ہیں۔پاکستان کے ازلی دشمن بھارت جہاں دہشت گردوں کوٹرینیگ دیتا ہے۔ یہ دہشت گرد آئے دن پاکستان میں دہشت گردی کرتے رہتے ہیں۔ امریکا نے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی ایک بات بھی نہیں مانی گئی۔ زرداری حکومت نے امریکا کے ساتھ کیری لوگر بل کے تحت امداد کے لیے رضا مندی ظاہر کر کے پاکستان کے لیے ایک مزید مصیبت کا سامان کیا۔
کیری لوگر بل کے تحت امریکا نے ٧۔٥ بلین ڈالر کی امداد پانچ سال میں مہیا کرنے کی اپنی کانگریس سے منظوری لی تھی۔ امداد ملنے پر پاکستان سے اسلامی شدد پسندوں کا خاتمہ کرنا طے ہوا تھا۔ڈکٹیٹر مشرف نے تو چھ سومسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالے کیا ۔ اس میں قوم کی مظلوم بیٹی حافظ قرآن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بھی تین بچوں کے ساتھ امریکا کے حوالے کیا۔ جس پر امریکا میں مقدمہ چلا۔ عدالت نے اسے دہشت گرد نہیں کہا ۔ صرف امریکی فوجیوں پر افغانستان کی جیل میں بندق اُٹھانے پر ٨٦ سال کی قید سنائی گئی جو اب بھی صلیبیوں کی جیل میں پابند سلاسل ہے۔ دیکھا جائے تو امریکا نے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے ساتھ ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا۔ ہمار ے ناعاقبت اندیش مقتدر حلقے بھول جاتے ہیں۔ ہم ٧٠سال سے امریکا کے دوست چلے آ رہے ہیں۔ پاکستانیوں کی آنکھوں میں دھول جوکنے کے لیے الیکٹرونک میڈیا پر امریکی امدداد کی بھر پور ایڈورٹائزمنٹ بھی کی جاتی مگر آج تک نہ ہمارے ملک سے غربت ختم ہوئی ۔ نہ کوئی خاص انڈسٹری لگی۔ نہ ہی دنیا کا بہترین نہری نظام ہوتے ہوئے بھی ہمارا ملک زری ترقی کر سکا۔ نہ ہی ہمارے ملک سے بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ ختم ہو سکی۔ نہ مہنگائی اور بے روز گاری ختم ہوئی۔دفاعی معاہدے سیٹو اور سینٹو میں امریکا کا ساتھ دینے کے باوجود امریکا نے ١٩٦٥ء کی جنگ میں ہماری کوئی بھی مدد نہیں کی۔بلکہ جو دفاعی سامان پاکستان نے پیسے دے کل کر خریدا تھا اس کے فاضل پرزوں کی سپلائی عین جنگ کے وقت بند کر دی اور جواز یہ پیش کیا کہ دفاعی سامان روس کے خلاف استعمال کے لیے پاکستان کو فرخت کیا تھا نہ کہ بھارت سے جنگ کرنے کے لیے۔
نام نہاد دستی کے بدلے ہم نے پشاور کے قریب بڈھ بیر سے امریکا جاسوس طیارہ اڑنانے کی اجازت دے کر روس کو ا پنادشمن بنا لیا اور روس نے ١٩٧٠ء کی جنگ میں ایٹمی گن بوٹس کے ذریعے پاکستان کی بحری ناکا بندی کر کے بھارت کی مدد کی۔ دوسری طرف ہمارے امریکا دوست جس کے ساتھ ہم سیٹو اور سینٹو کے معاہدے کے ساتھی تھے کا بحری بیڑا صرف چل پڑا تھا ہماری مدد کے لیے نہیں پہنچا۔ بلکہ یہودی ہنری کیسنگر اُس وقت امریکا کے وزیر خارجہ تھے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ پاکستان ٹوڑنے میں امریکا نے بھارت کی مدد کی تھی۔صاحبو! ہم اس بات کی نشان دہی وقت سے پہلے ہی کر رہے ہیں کہ گریٹ گیم کے تحت امریکا بھارت اور اسرائیل نے پاکستان کے حصے بخرے کرنے کے لیے پھر سے معاہدے کر لیے ہیں۔ اس میں بھارت کے ساتھ امریکا دفاہی معاہدہ اور اسرائیل کے دورے کے دوران بھارت کی غیر مشروط مدد شامل ہے۔ نائن الیون کا خود ساختہ واقعہ کروا کے مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ کا آغازبش کے دور میں پہلے سے ہی شروع ہوچکا ہے۔دنیا میں جمہوری طریقے سے بھی اسلام کو آنے دیا جا رہا ہے جیسے الجزائر اور مصر کے واقعات سے واضع ہوتا ہے۔ یہودی میڈیا کے ذریعے اسلام کو دہشت گرد ثابت کر دیا ہے۔
مسلمانوں کی مذہبی فریضہ جہاد کو دنیا میں بدنام کر دیا ہے۔بکائو مسلمانوں کو ملا کر تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) بنائی جس نے پاکستان کے سیکورٹی کے نوجوانوںکے سر قلم کر فٹ بال کھیلے۔ اب افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف دہشت گردی کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ دوسری طرف داعش بنا کر دنیا میں مسلمان حکومتوں کی فوجوں پر حملے کروائے۔ بزرگوں کے مزارات کو مسمار کیا گیا۔ پوری دنیا میں مسلمانوں پر ان سے حملے کروائے گئے۔ امریکا کی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن اپنی کتاب میں داعش بنانے کا اعتراف کر چکی ہے۔
امریکہ کے وزیر دفاع کامیڈیا میں آیا تھا کہ پاکستان میں بلیک واٹر کاروائیاں کرے گی اوراس کی ذمہ واری کی ہماری بنائی ہوئی ٹی ٹی پی قبول کرتی رہے گی۔ اس مشکل وقت میں ہے کوئی مسلم لیڈر جو امریکی امداد امریکا کے منہ پر مار دے اور اپنے ملک کے مفادات کا حامی بن جائے۔افغان طالبان کی وجہ سے ہماری مغربی سرحد محفوظ ہوئی تھی ہمیں افغان طالبان کے خلاف جنگ میں ہر گز شامل نہ کرے۔ نہ ہی اپنے غدار کو رہا کرے۔ پاکستان کو٧٠ سال سے جاری ڈو مور کامطالبہ یکسر رد کر دینا چاہیے۔امریکا امداد کے بغیر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بھارت نے امریکا اور اسرائیل سے دفاعی معاہدے کیے ہیں پاکستان کوچین اور روس کے ساتھ دفاعی معاہدے اور تعلوقات استوار کرنے چاہیے۔ اپنے ایٹمی اور میزائل پرگروام کو اپنے دفاع کے لیے تیز تر کرنا چاہیے۔ اپنے ملک میں پاکستان کی ٩٠ فی صد خاموش اکثریت کے جذبات کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی نظام حکومت قائم کر دینا چاہیے۔ جذبہ جہاد کو پھر سے تازہ کرنا چاہیے۔ اس سے پاکستان مستحکم ہو گا۔ ایسا ہی کرنے سے امریکا کا ٧٠ سال سے جاری ڈو مور مطالبہ ختم ہو گا۔ اللہ مثل مدینہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا محافظ ہوآمین۔